بلوچستان اور دیگر علاقوں میں تعلیم یافتہ طبقے اور سیاسی کارکنان کے خلاف جبری گمشدگیوں اور مسلسل ہراسانی کا سلسلہ بند کیا جائے۔ این ڈی پی

8

نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کے مرکزی ترجمان نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ چند ماہ سے بلوچستان سمیت دیگر علاقوں میں ایک خطرناک اور مخصوص طرز عمل سامنے آ رہا ہے، جس میں سیاسی کارکنان، ادیب، تعلیم یافتہ طبقے، خاص طور پر یونیورسٹی کے طلبہ اور لیکچررز کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ یہ سلسلہ صرف افراد کی ماؤرائے آئین گرفتاری یا لاپتہ ہونے تک محدود نہیں بلکہ ان کے اہل خانہ ، رفقاء اور وکلاء بھی قانونی دباؤ اور ہراسانی کا سامنا کر رہے ہیں، جس کا مقصد نوجوان، فعال اور تعلیم یافتہ افراد کو خوفزدہ کرنا اور تعلیمی و سیاسی سرگرمیوں میں خاموشی پیدا کرنا ہے۔

ترجمان نے واضح کیا کہ تربت یونیورسٹی کے لیکچرر بالاچ بالی کو 3 دسمبر 2025 کو تربت کے سلالہ بازار آپسر سے اغوا کیا گیا، جب وہ یونیورسٹی سے واپس گھر آ رہے تھے ۔ یہ واقعہ تعلیم یافتہ طبقے کے خلاف بڑھتے ہوئے دباؤ کی ایک سنگین مثال کے طور پر سامنے آیا. شدید عوامی مزاحمت و رد عمل کو دیکھ کر، بالی کو دو دن بعد آج، 5 دسمبر کے دوپہر کو بازیاب کیا گیا.

انہوں نے مزید کہا کہ قائد اعظم یونیورسٹی کے طالب علم سعید بلوچ گزشتہ چھ ماہ سےجبری گمشدگی کا شکار ہیں، اور حالیہ دنوں ان کے بھائی محمد اعظم ایف آئی آر درج کروانے کے لیے اسلام آباد کی ضلعی عدالت اور ہائی کورٹ میں پیش ہوئے۔ عدالت نے 22-A کی درخواست پر فیصلہ نہیں کیا اور حبسِ بیجا کی درخواستیں لمبی تاریخوں کے لیے ملتوی کر دی گئیں۔ عدالت سے نکلتے ہی محمد اعظم کو اس کے ہمراہ ماجد بلوچ سمیت پولیس نے گرفتار کر لیا، اور شدید اور فوری رد عمل کی وجہ سےانہیں گزشتہ رات رہا کر دیا گیا جبکہ انکے وکلاء ایمان مزاری بھی مقدمات اور قانونی دباؤ کا سامنا کر رہی ہیں۔ یہ صورتحال واضح کرتی ہے کہ نہ صرف لاپتہ افراد بلکہ ان کے اہل خانہ ، رفقاءاور وکلاء بھی تحفظ سے محروم ہیں۔

ترجمان نے کہا کہ تربت شاہی تمپ کے رہائشی ساجد احمد بھی کچھ عرصہ قبل لاپتہ ہوئے اور اس کے سامنے لانے کے بابت اب تک کوئی سنجیدہ پیش رفت نہ ہوئی ہے۔ یہ واقعہ بھی اس تشویشناک رجحان میں شامل ہے جہاں نوجوان اور تعلیم یافتہ بلوچ افراد کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، جس سے تعلیمی حلقوں میں خوف اور دباؤ پیدا ہوتا ہے۔

این ڈی پی کے مرکزی آرگنائزنگ کمیٹی کے رکن غنی بلوچ ، پچیس مئی 2025 کو کوئٹہ سے کراچی کے سفر کے دوران خضدار کے قریب اغوا کیے گئے تھے ، جنکا آج تک کوئی سراغ نہیں ملا۔ نہ ہی انکی جبری گمشدگی اور گرفتاری سے متعلق سرکاری سطح پر کوئی موقف سامنے آیا بلکل مسلسل دیکھنے میں آیا ہے کہ عدلیہ سمیت دیگر ادارے جبری گمشدگی کے عمل میں معاونت کا کردار ادا کر رہے ہیں جبکہ ان کی فیملی، دوست اور سیاسی ساتھی مسلسل ان کی بازیابی کا مطالبہ کرتے آرہے ہیں۔

اسی طرح، پارٹی کی مرکزی آرگنائزنگ باڈی سے منسلک ثنا کھیتران بلوچ کو 10 اگست 2025 کو ملتان ایئرپورٹ سے اغوا کیا گیا جنکو تاحال کسی عدالت میں پیش نہیں کیا گیا جبکہ اس عمل میں اے ایس ایف سمیت ایف آئی اے کے ادارے براہ راست ملوث ہیں جنہوں نے بورڈنگ کا عمل مکمل ہونے کے بعد بھی ثنا بلوچ کو روکے رکھا اور اداروں کے حوالے کر کے بری الذمہ ہو گئے۔

این ڈی پی اس پورے سلسلے کی شدید مذمت کرتے ہوئے مطالبہ کرتی ہے کہ فوری طور پر جبری گمشدگیوں اور ہراسانی کے اس سلسلے کو روکا جائے، متاثرین کے حقوق اور تحفظ کو یقینی بنایا جائے، اور تعلیم یافتہ طبقے پر لگائے جانے والے غیر قانونی دباؤ کی روک تھام کی جائے، تاکہ بلوچستان میں انسانی حقوق اور عدالت کے بنیادی اصولوں کا احترام برقرار رہے۔