این آر او: قانون یا اشرافیہ کا حفاظتی حصار؟ – برکت مری

12

این آر او: قانون یا اشرافیہ کا حفاظتی حصار؟

تحریر: برکت مری پنجگور

دی بلوچستان پوسٹ

ہمارے سیاسی منظر نامے میں ایک اصطلاح ایسی ہے جو بار بار دہرائی جاتی ہے مگر کم ہی سمجھی جاتی ہے، اور وہ ہے این آر او۔ این آر او کا مطلب ہے “نیشنل ریکنسیلی ایشن آرڈیننس” (National Reconciliation Ordinance)۔ یہ ایک قانونی اصطلاح ہے جو پاکستان میں استعمال ہوتی ہے، خاص طور پر سیاسی معافی یا سیاسی کارکنوں اور سیاستدانوں کو معاف کرنے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔

پاکستان میں این آر او کا استعمال 2007 میں صدر پرویز مشرف کے دور میں ہوا تھا، جب انہوں نے ایک آرڈیننس جاری کیا جس کے تحت سیاسی کارکنوں اور سیاست دانوں کو معاف کیا گیا تھا۔ بظاہر یہ ایک قانونی اصطلاح ہے، مگر عملی طور پر اس کا مفہوم ہمیشہ طاقتور طبقے کی سہولت اور عام آدمی کی محرومی سے جڑا رہا ہے۔ سادہ الفاظ میں، این آر او اشرافیہ کی لوٹ مار، بدعنوانی اور قومی خزانے کو نقصان پہنچانے کے بعد دی جانے والی معافی کا نام ہے۔

ہم ایک ایسے ملک میں سانس لے رہے ہیں جہاں قانون سازی کا محور عوامی فلاح نہیں بلکہ مخصوص بااثر طبقات کا تحفظ بن چکا ہے۔ غریب عوام کے خون پسینے سے جمع کیے گئے ٹیکسوں کو کبھی ایک آرڈیننس اور کبھی ایک ترمیم کے ذریعے معاف کر کے اشرافیہ کے لیے نئی شروعات کا راستہ ہموار کر دیا جاتا ہے۔ وہی دولت جو تعلیم، صحت اور روزگار پر خرچ ہونی چاہیے، طاقتور ہاتھوں میں منتقل ہو کر مزید طاقت پیدا کرتی ہے۔

دوسری طرف ایک عام شہری ہے، ایک باپ جو اپنے بچوں کی دو وقت کی روٹی، تعلیم اور علاج کے لیے دن رات محنت کرتا ہے۔ جب ایک باپ سماجی کمزوری، روزگار کے فقدان سے مایوس ہو کر گھر واپس لوٹتا ہے، بچوں کے خشک لبوں اور تھکے چہروں کو دیکھ کر خود کو اور اپنے بچوں کو رسی پر چھڑا کر زندگی کا خاتمہ کرتا ہے، لیکن افسوس اس کے لیے نہ کوئی این آر او ہے، نہ کوئی ریلیف آرڈیننس، نہ کوئی قانونی تحفظ۔ جب وہ معاشی دباؤ سے ٹوٹ جاتا ہے تو نظام اسے سہارا دینے کے بجائے خاموشی سے تماشائی بن جاتا ہے۔

یہ تلخ حقیقت ہے کہ ہماری بیشتر حکومتیں احتساب کو مضبوط کرنے کے بجائے خود کو احتساب سے بچانے کے طریقے تلاش کرتی رہی ہیں۔ ہر دور میں ایسے قوانین سامنے آئے جن کا مقصد کرپشن کا خاتمہ نہیں بلکہ کرپشن کرنے والوں کو قانونی ڈھال فراہم کرنا تھا۔ این آر او اسی سلسلے کی ایک نمایاں مثال ہے، جس نے قومی وسائل لوٹنے والوں کو یہ پیغام دیا کہ طاقت ہو تو قانون بھی جھک جاتا ہے۔

ایسی قانون سازی نہ صرف آئین کی روح کے منافی ہے بلکہ انسانی اور اخلاقی اقدار کی بھی کھلی خلاف ورزی ہے۔ قانون اگر صرف طاقتور کے لیے نرم اور کمزور کے لیے سخت ہو تو وہ انصاف نہیں بلکہ ظلم کا ہتھیار بن جاتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ قومیں اسی وقت زوال کا شکار ہوتی ہیں جب قانون عوام کی بجائے اشرافیہ کے مفادات کا محافظ بن جائے۔

اصل سوال یہ نہیں کہ این آر او کس نے دیا، بلکہ یہ ہے کہ ہم کب تک ایسے نظام کو قبول کرتے رہیں گے جہاں معافی جرم سے بڑی اور طاقت انصاف سے زیادہ مضبوط ہو۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔