انسانی حقوق ہی انسان کی بنیادی آزادی کی تحفظ دینے کا نام ہے۔
تحریر: زر مہر بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
اقوامِ متحدہ کے سابق سیکرٹری جنرل (بوتروس غالی) کے مطابق، انسانی حقوق انسانیت کی مشترکہ زبان ہے۔
دنیا کا واحد فوجی ریاست پاکستان ہے جو آج تک انسان و انسانیت کی تذلیل و بے عزتی کرتا چلا آ رہا ہے۔ غیر فطری ریاست پاکستان میں انسانی حقوق کا کوئی وجود ہی موجود نہیں ہے۔ غیر فطری ریاست پاکستان نے بلوچستان پر جبری قبضہ کر کے مقبوضہ بلوچستان میں بلوچوں کا کیا حال کردیا ہے، اس کرب انگیز جبر کی کون سی مثال دوں؟
بلوچستان میں نہ تعلیم بلوچ کو دی گئی، نہ صحت دی گئی، نہ روزگار دیا گیا، نہ آزادانہ زندگی، نہ حق و حقوق۔ بلوچستان میں 39 معدنی ذخائر پر غیر فطری ریاست پاکستان کا جبری قبضہ ہے۔ سوئی گیس کمپنی نے 1958 میں گیس کا آپریشن شروع کیا۔ بلوچستان کا گیس پنجاب تک جاتا ہے پر بلوچستان کی مظلوم بلوچ قوم ابھی تک لکڑی جلا کر اپنی روزمرہ زندگی گزارتی ہے۔
39 معدنی ذخائر سے انٹرنیشنل کمپنی بھی ملوث ہیں، پر بلوچستان کی بلوچ عوام اپنی زمین اور بلوچستان کے وسائل سے محرومی کی زندگی پر مجبور کر دی گئی ہے۔
مقبوضہ بلوچستان کو غیر فطری ریاست پاکستان نے جبری قبضہ کرنے کے بعد اگر کچھ دیا تو، فوجی آپریشن، گھروں کو مسمار کرنا، شہر و گاؤں میں فوجی کیمپ، بلوچوں کی زمینوں پر قبضہ و نقل مکانی پر مجبور و در بدر کرنا، بلوچ نسل کشی کرنا، بلوچوں کو ٹارچر سیلوں میں قیدی بنانا اور بعد میں ان کا نام انکاؤنٹر رکھ دینا، پہلے سے جبری گمشدگی کا شکار بلوچوں کو جعلی عدالتوں میں ماورائے عدالت قتل کرنا، پورے بلوچستان میں فوج کشی کرنا۔ 1948 سے اب تک قبضہ گیر فوجی ریاست پاکستان نے مقبوضہ بلوچستان یہی سارے انسانی حقوق دیے ہیں۔
انسانی حقوق میں سب سے پہلے انسان کی “Freedom” آزادی ہی واضح کی گئی ہے۔ انسانی آزادی میں کتابوں کا مطالعہ کرنا، کتاب لکھنا، آزادانہ شعر و شاعری کرنا شامل ہے۔ انسان جہاں بھی جانا چاہے، اپنی زمین پر اس انسان کو حق ہے کہ وہ جا سکتا ہے۔
ایک انسان کا بنیادی حق اُس کی آزادی ہے۔ انسانی آزادی ہی انسان کی زندگی کا مقصد اور انسانیت کو تحفظ دینے کا نام ہے۔ انسانی حقوق میں انسانی “Immunities” حفاظت ہی انسانی زندگی کا بقا ہے۔
انسانی حقوق میں انسانی “Benefits” تعلیم، صحت، آزادانہ روزگار، یکساں انصاف، سب کے لیے برابر قانون، چاہے کسی انسان نے کتنا بڑا جرم کیوں نہ کیا ہو، لیکن انسان کو عدالت یعنی قانون کے مطابق سزا دینا ہے۔ لیکن عالمی انسانی حقوق کی میڈیا نیٹ ورک ممبروں نے کبھی بلوچستان میں آنے کی کوشش نہیں کی کہ 78 سالوں میں غیر فطری ریاست پاکستان نے انسانی حقوق کی کتنی خلاف ورزیاں کی ہیں۔
پاکستان پورے ایشیا کی انسانیت کے لیے خطرہ بن چکا ہے۔ پاکستانی فوج انسانی جانوں کی سوداگر ہے۔ پاکستان سے نہ بھارت خوش ہے، نہ ایران، نہ افغانستان اور نہ ہی چین۔ جب کسی ملک کے تعلقات اپنے ہمسایہ ممالک سے خراب ہوں تو کیا مقبوضہ بلوچستان میں بلوچوں کے ساتھ اچھے ہوں گے؟
بلوچ قوم کی درد مندانہ مطالبہ ہے عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں سے، عالمی طاقتوں سے کہ قبضہ گیر غیر فطری ریاست پاکستان کے خلاف عالمی قانون و آئین کے مطابق انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا حساب لیا جائے۔ بلوچ مظلوم قوم ہے۔ بلوچ اپنی زمین بلوچستان کی خودمختاری کے لیے، اپنی زبان، اپنی ادب، اپنی بلوچستان وسائل کے استحصال کے خلاف بین الاقوامی ہمدردی کی اپیل کرتا ہے۔ بلوچستان بلوچوں کی زمین ہے۔ بلوچ اپنی زمین، اپنی شناخت اور اپنی زمین کے وسائل کے تحفظ کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔
بلوچ آزادی تحریک نے ہی پاکستان کے جبر کو دنیا کے سامنے بے نقاب کیا ہے اور کرے گا۔
آزاد بلوچستان سے ہی بلوچ قوم کی بقا اور خودمختاری ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔













































