انتہا پسندی
ڈاکٹر منان بلوچ
مترجم: وشڑی بگٹی
دی بلوچستان پوسٹ
مذہبی انتہا پسندی میں تھوڑا انتہا پسندی کو واضح کروں کہ انتہا پسندی کیا ہے؟ انتہا پسندی ایک ذاتی یا شخصی رویہ ہے جسے آپ نارمل رینج سے اوپر لے جائیں تو وہ انتہا پسندی کہلاتی ہے۔ جیسے اگر آپ کسی سواری کو تیز رفتار سے چلائیں جو آپ کی نارمل رفتار سے زیادہ ہو تو وہ انتہا پسندی ہے۔ مطلب کوئی بھی چیز نارمل رینج سے اوپر چلی جائے تو وہ انتہا پسندی ہے۔
آج کل دنیا میں جو ڈسکس ہو رہا ہے وہ مذہبی انتہا پسندی ہے۔ تو تھوڑا مذہب کو ڈسکس کیا جائے کہ مذہب کیا ہے؟
اگر میں پیچھے جاؤں کہ مذہب کی شروعات کیسے ہوئی؟ اگر عقیدے کے لحاظ سے دیکھو یا معاشرے کے حوالے سے دیکھو تو دونوں حوالوں سے ہمیں ایک چیز دیکھنا ہوگی جہاں مذہب آئے تو وہ کسی نظریے کی بنیاد پر آئے۔ وہ یا تو غلام دارانہ سماج کے خلاف آیا، یا کسی بادشاہت کے خلاف، یا جہاں کسی معاشرے میں استحصال ہوا وہاں اسے ختم کرنے کی بنیاد پر ایک انقلابی طریقے سے آیا۔ تو اس انقلابی شخص کو پیغمبر یا رسول کہا گیا۔
اگر میں حضرت موسیٰؑ کے زمانے کو دیکھوں کہ ان کی قوم پر جو جبر ہوتا ہے حالانکہ موسیٰؑ کی پرورش فرعون کے گھر میں ہوتی ہے تو فرعون کہتا ہے کہ میں نے تم پر احسانات کیے ہیں، تم میرے خلاف نہ نکلو۔
حضرت موسیٰؑ کہتے ہیں کہ تمہارے احسانات مجھ پر ہیں، میری قوم پر نہیں۔
تو وہ اپنی قوم پر ہونے والے جبر اور بادشاہت کی زیادتی کے خلاف نکلتے ہیں، یا تو جنگ کرتے ہیں یا اس علاقے سے نکل جاتے ہیں۔
اگر میں حضرت ابراہیمؑ، حضرت عیسیٰؑ، حضرت سلیمانؑ، حضرت داؤدؑ یا حضرت نوحؑ کے زمانے کو دیکھوں تو حضرت نوحؑ کے معاشرے میں استحصال ہوتا تھا تو وہ اس کے خلاف نکلتے تھے۔
اگر میں تھوڑا آگے آؤں تو 571 عیسوی میں حضرت محمد ﷺ پیدا ہوتے ہیں۔ اس وقت کا معاشرہ مکمل طور پر قبائلی تھا جیسے آج ہمارے ہاں قبائلی سسٹم ہے۔ اس وقت بھی یہی سسٹم تھا کہ سردار عام لوگوں پر جبر کرتے تھے، انہیں غلام بناتے تھے، ان پر ظلم و زیادتی کرتے تھے۔ غلاموں کو انسانی قدر نہیں دیتے تھے، غلام عورتیں بھی تھیں۔
ایک بات کی جاتی ہے کہ عورتوں کو زندہ دفن کیا جاتا تھا، اصل میں یہ جہالت نہیں تھی بلکہ اس معاشرے کا رویہ تھا۔ اگر وہ زمانہ جہالت ہوتا تو ابو سفیان جیسے لوگ عالم نہ ہوتے، ورقہ بن نوفل جیسے لوگ نہ ہوتے۔
حضرت خدیجہ کے پاس بہت بڑا کاروبار تھا، یقیناً ان کے پاس تکنیکی علم تھا۔ ابو جہل، ابو لہب چاہے وہ کیا کہتے تھے، اپنی جگہ علم والے تھے، جاہل نہیں تھے۔ بلکہ وہ اپنے قبائل کے فطری سردار تھے اور انہی بنیادوں پر ظلم و جبر کرتے تھے۔
پھر کہا جاتا ہے کہ عورتیں زندہ دفن کی جاتی تھیں یہ اجتماعی عمل نہیں تھا۔ بلکہ سردار کمزور لوگوں کی عورتوں کے ساتھ زیادتی کرتے تھے، پھر سنگسار کرتے یا زندہ دفن کر دیتے تھے۔
جب پیغمبر ﷺ نے اس ظلم، زیادتی اور جبر کو دیکھا تو اس کے خلاف آواز اٹھائی۔
وہ اپنی ابتدائی تعلیم میں کہتے ہیں “کسی کو یہ حق نہیں کہ وہ غلام رکھے۔ اگر غلام رکھتے ہو تو اسے وہی کپڑا دو جو خود پہنتے ہو، وہی سواری دو جو خود استعمال کرتے ہو۔” پھر وہ عورتوں کے ساتھ بہتر رویہ رکھنے کی تعلیم دیتے ہیں۔ وہ چھوٹی چھوٹی رنجشوں کی بنیاد پر جنگ کی طرف جانے سے روکتے ہیں۔ ان کی یہ باتیں انقلابی تھیں۔
سردار کہتے تھے کہ محمد ﷺ ہماری ملکیت، حاکمیت اور بادشاہت ختم کرنا چاہتے ہیں، اس لیے وہ ان کی بات نہیں مانتے تھے۔ اس حد تک پیغمبر ﷺ ظلم کے خلاف کام کرتے ہیں کہ وہ انقلابی بن جاتے ہیں۔
بعد میں یہ عمل توسیف پسندی کی طرف جاتا ہے۔ عرب اپنے مذہب کو فخر کی بنیاد پر آگے بڑھاتے ہیں اور دوسری قوموں کو قبضہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ چنانچہ کئی علاقوں پر قبضہ بھی کر لیتے ہیں اسپین، یونان تک۔
ایران میں آج تک عربوں سے نفرت پائی جاتی ہے۔ وہ عربوں کو “گوخور” کہتے ہیں کیونکہ فارس بڑی تہذیب تھی، عرب آئے اور اسے ختم کیا مذہب کے نام پر۔
آج کے دور میں دیکھا جائے تو اس وقت کا مذہب نارمل پوزیشن میں تھا ظلم سے نکالنے والا۔
لیکن جب اسے توسیف پسندی اور قبضہ گیری کے لیے استعمال کیا گیا تو یہ انتہا پسندی بن گئی، کیونکہ جب انسان نارمل پوزیشن میں ہو تو کسی کے ملک پر قبضہ نہیں کرتا، نہ کسی کی تہذیب مٹاتا ہے، نہ غلام بناتا ہے۔
پیغمبر محمد ﷺ نے غلامی کے خلاف جنگ کی، لیکن بعد میں انہی کے نام پر غلامی دوسرے علاقوں میں پیدا کی گئی۔
اسی طرح عراق، بابل، اسپین، یونان سب تہذیبیں ٹوٹتی گئیں۔ درحقیقت اس کے پیچھے انتہا پسندی کا عمل تھا۔
عیسائیت میں چرچ نے ہزار سال حکمرانی کی وہ بھی انتہا تھی۔ پادری ترکِ دنیا کا دعویٰ کرتے تھے مگر اپنی خواہشات خفیہ طور پر پوری کرتے تھے۔ اسی طرح بھارت میں شیو سینا اور بی جے پی کا رویہ انتہا ہے۔
آج جو مذہبی انتہا پسندی دنیا میں سب سے زیادہ پھیلی ہوئی ہے وہ اسلام کے نام پر ہے چاہے افغان مفادات ہوں، عرب مفادات ہوں، امریکہ کے، چین کے یا پاکستان کے۔ ہر کوئی مذہب کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کر رہا ہے۔
جو مذہب کبھی انسانیت، برابری اور عدل کا پیغام لایا تھا، آج اسے انسانیت کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے۔
داعش لوگوں کو 50-50 کے گروہوں میں قتل کرتی ہے، عورتوں کو مارتے ہیں، اسکول جلاتے ہیں، لائبریریاں جلا دیتے ہیں۔ کیونکہ علم انتہا پسندی کے سامنے کھڑا ہوتا ہے۔ یہی کچھ نائجیریا، صومالیہ، شام، مصر، عراق اور افغانستان میں ہو رہا ہے۔ افغانستان کے طالبان نے لڑکیوں کو محدود کیا، کابل کی تہذیب ختم کی جو کبھی “منی یورپ” کہلاتا تھا۔
اسی طرح یہاں بھی ہر مخالف کو ختم کیا جاتا ہے جیسے جرمنی میں ہولوکاسٹ ہوا تھا، ویسا ہی ہولوکاسٹ یہاں شیعہ اور دیگر مخالفین کے خلاف کیا جاتا ہے اور اسے مذہب کا نام دیا جاتا ہے۔
مذہب کوئی جنگ نہیں۔ مذہب کو کوئی خطرہ نہیں، کیونکہ مذہب ایک عالمی اور کائناتی چیز ہے۔ کسی کو یہ حق نہیں کہ کسی کی تہذیب، زبان یا تاریخ مٹا دے۔
ہمارے ہاں برقعہ کا کلچر عرب کا کلچر ہے، بلوچ کا نہیں۔ افغانستان کا نہیں۔ کابل میں کبھی برقعہ کا رواج نہیں تھا۔ عرب کلچر کو آگے بڑھانے کے لیے مذہب کا سہارا لیا گیا ہے اسی کو آج انتہا پسندی کہا جاتا ہے۔
میں ملت کی بات کروں تو ملت سے مراد یہ ہے کہ دنیا میں کوئی قوم نہ رہے۔ حالانکہ قرآن میں اللہ کہتے ہیں کہ میں نے انسانوں کو قوموں میں تقسیم کیا تاکہ پہچان ہو۔ پہچان ایک قوم ہے۔
بلوچ کی قدریں پنجابی، سندھی، افغان، ایرانی سے مختلف ہیں یہی ان کی پہچان ہے، یہی وہ بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔
القاعدہ، داعش، طالبان، یہ جماعتیں سب کے پیچھے اصل مفاد خدا کی خدمت نہیں، مذہب کی خدمت نہیں اصل مفاد قبضہ ہے۔ ملت کے نام پر قبضہ۔ دنیا کو گرفت میں لانا۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔













































