اقوام متحدہ سمیت عالمی ادارے سامراجی جارحیت روکنے میں ناکام ہوچکے ہیں۔ بی ایس او

0

بی ایس او نے کہا ہے کہ بلوچ طلبہ سب سے بڑا ہدف اور بلوچستان میں تعلیمی ادارے عسکری چھاؤنیاں بنا دئے گئے ہیں۔

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن “بی ایس او” کے مرکزی ترجمان نے یونیورسل ڈیکلریشن آف ہیومن رائٹس کی 77ویں سالگرہ کے موقع پر جاری اپنے بیان میں کہا ہے کہ یہ دستاویز عالمی نظامِ جبر کا حصہ بن چکی ہے، جسے محکوم اقوام کی جمہوری جدوجہد کو محدود کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

ترجمان کے مطابق یہ دن عالمی طاقتوں اور ریاستی اداروں کی سرمایہ دارانہ اور جابرانہ منافقت کو بے نقاب کرنے کا موقع ہے۔

بی ایس او کے مرکزی ترجمان نے کہا کہ اقوام متحدہ سمیت عالمی ادارے دنیا بھر میں جاری سامراجی جنگوں، نسل کشی اور فوجی جارحیت کو روکنے میں مکمل طور پر ناکام ثابت ہوئے ہیں، جس کے باعث ان اداروں کی اخلاقی ساکھ بری طرح مجروح ہو چکی ہے۔

ترجمان کے مطابق عالمی بحرانوں کے دوران یہ ادارے طاقت ور ریاستوں کے ہاتھ مضبوط کرنے کے علاوہ کچھ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے، جبکہ انسانی حقوق کے نعرے کے پیچھے چھپا ہوا ڈھونگ اب پوری طرح سامنے آ چکا ہے۔

میڈیا بیان میں کہا گیا کہ یونیورسل ڈیکلریشن آف ہیومن رائٹس کی تاریخ خود نوآبادیاتی جرائم کا ثبوت ہے، 1948ء میں جب دنیا کا بڑا حصہ غلامی کے تحت تھا اس دستاویز نے جان بوجھ کر حقِ خود ارادیت کو خارج رکھا، جو کہ ایک دانستہ سیاسی سازش تھی۔

ترجمان کے مطابق اس سازش کا مقصد بلوچستان سمیت محکوم اقوام کی آزادی کی جدوجہد کو ’’داخلی معاملہ‘‘ قرار دے کر اسے عالمی توجہ اور حمایت سے محروم رکھنا تھا۔

بی ایس او نے کہا کہ بلوچ قوم کے خلاف جاری ریاستی جبر اس سرمایہ دارانہ و استحصالی عالمی نظام کا براہِ راست تسلسل ہے، ریکوڈک اور گوادر سمیت وسیع معدنی وسائل بلوچ عوام سے چھین کر پاکستانی اشرافیہ اور عالمی سرمایہ داروں کے حوالے کیے جا رہے ہیں، جس سے بلوچستان کو نئی اقتصادی نوآبادیات میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔

بیان میں کہا گیا کہ ریاستی ڈھانچہ اختلاف کو دبانے، ثقافتی یکسانیت مسلط کرنے اور سیاسی مزاحمت کو طاقت سے کچلنے کا آلہ بن چکا ہے۔

ترجمان نے ہیومن رائٹس کمیشن آف بلوچستان کے اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ صرف جون تا اکتوبر 2025 کے دوران 547 سے زائد جبری گمشدگیوں اور 238 ماورائے عدالت قتل کی تصدیق ہوئی ہے۔

ان کے مطابق سب سے زیادہ نشانہ طلبہ اور نوجوان سیاسی کارکن بن رہے ہیں، جبکہ تعلیمی اداروں کو عسکری چھاؤنیوں میں بدل دیا گیا ہے، جہاں سیکورٹی فورسز کی مداخلت روزمرہ معمول ہے یہ صورتحال تعلیم کے حق، اظہارِ رائے اور محفوظ تعلیمی ماحول کی کھلی خلاف ورزی ہے۔

بیان کے مطابق مقتدر قوتوں کا یہ رویہ بلوچ قوم کی فکری و سماجی ترقی کو روکنے کا منظم طریقہ ہے، جبکہ عالمی انسانی حقوق کے اداروں کی خاموشی ان کی دوغلی پالیسی کو ظاہر کرتی ہے۔

ترجمان نے کہا کہ اس خاموشی نے ریاستی جبر میں اضافہ کیا ہے اور بلوچ معاشرے میں خوف، عدم تحفظ اور سیاسی گھٹن کو مزید بڑھایا ہے۔

انہوں نے مزید کہا بلوچ قوم بحیثیت محکوم اپنے آفاقی جمہوری حقوق اور حقِ خود ارادیت پر کامل یقین رکھتی ہے اور اس کے حصول کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھے گی بلوچ قوم حقوق کی بھیک نہیں بلکہ اپنے سیاسی و معاشی مستقبل پر مکمل خودمختاری کا حق مانگتی ہے۔

ترجمان نے واضح کیا کہ جب تک بلوچ قوم کو اپنے حقِ خود ارادیت کا استعمال نہیں دیا جاتا، یونیورسل ڈیکلریشن ایک مکاری پر مبنی دستاویز ہی رہے گا۔

بی ایس او نے عزم ظاہر کیا کہ وہ آئینی و سیاسی حدود کے اندر رہتے ہوئے اپنی قومی جدوجہد کو انقلابی جذبے کے ساتھ جاری رکھے گی اور اپنے آفاقی حقِ خود ارادیت کو ہی واحد راستہ سمجھتی ہے۔