سابق افغان حکومت کے دور میں صوبہ بغلان اور تخار میں تعینات رہنے والے پولیس کمانڈر اکرام الدین سری تہران میں فائرنگ کے واقعے میں ہلاک ہو گئے ہیں۔
اکرام الدین سری کو مقامی وقت کے مطابق شام تقریباً 7:30 بجے اُس وقت گولیاں ماری گئیں جب وہ تہران میں اپنے دو دیگر ساتھیوں کے ہمراہ دفتر سے نکل رہے تھے۔
اکرام الدین سری کو ہسپتال منتقل کیا گیا لیکن سر پر گہرے زخم آنے کے باعث ان کی موت واقع ہو گئی جبکہ ان کے ساتھ دیگر دو ساتھیوں میں سے بھی ایک ہلاک جبکہ دوسرا زخمی حالت میں ہے۔
ایرانی پولیس نے تاحال اس واقعے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا نہ ہی کسی گروہ نے اس کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ افغانستان کی طالبان حکومت کے مخالف عسکری گروہ ’نیشنل ریزسٹنس فرنٹ آف افغانستان‘ کے خارجہ تعلقات کے سربراہ علی میثم نظری نے سوشل نیٹ ورک ایکس پر ایک پیغام میں اکرام سری کی موت کی تصدیق کی اور اس واقعے میں طالبان حکومت کے ملوث ہونے کا الزام لگایا۔
دوسری جانب طالبان حکومت نے بھی اس معاملے پر ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا تاہم ماضی میں انھوں نے افغانستان کی سرحدوں سے باہر کسی بھی سکیورٹی یا فوجی سرگرمیوں کی تردید کی ہے۔
یاد رہے کہ ایران میں حالیہ مہینوں میں طالبان مخالف دوسری شخصیت کی ہلاکت کا واقعہ پیش آیا ہے۔ چار ماہ قبل مشہد (ایران) میں مقیم ایک افغان جہادی کمانڈر معروف غلامی بھیں مسلح افراد کی فائرنگ سے ہلاک ہو گئے تھے۔
اکرام الدین سری 2021 سے تہران میں مقیم تھے
اکرام الدین سری نے 2017 سے 2019 تک سابق افغان صدر اشرف غنی کے دور حکومت میں صوبہ بغلان کے پولیس کمانڈر کے طور پر کام کیا اور بعد میں صوبہ تخار کے پولیس کمانڈر بن گئے۔
طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد 2021 میں وہ ایران منتقل ہو گئے تب سے وہ تہران میں مقیم تھے۔
بی بی سی کو ذرائع نے بتایا کہ اکرام الدین سری سابق فوجیوں کے ساتھ سرگرم تھے تاکہ ایرانی حکومت سے رہائش کا اجازت نامہ حاصل کیا جا سکے۔ یہ اجازت نامہ سابق فوجیوں کو ایران سے افغانستان واپس بھیجے جانے سے روکتا ہے۔‘
ذرائع کے مطابق واقعے سے پہلے اکرام الدین سری کو ایک فون کال موصول ہوئی تھی جس میں کال کرنے والے نے اس مشکل حل کرنے میں تعاون کی درخواست کی تھی۔



















































