اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں افغانستان کی صورتحال پر ہونے والے اجلاس میں پاکستان نے ایک بار پھر کہا ہے کہ افغان سرزمین سے پاکستان پر حملے بند نہ ہوئے تو وہ اپنے دفاع میں ’تمام ضروری اقدامات‘ کرے گا دوسری جانب اس اجلاس میں شامل انڈین مندوب نے پاکستان پر ’تجارتی دہشتگردی‘ کا الزام لگایا ہے۔
بدھ کے روز ہونے والے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب عاصم افتخار احمد کا کہنا ہے کہ پاکستان نے اچھے ہمسائے کے طور پر گذشتہ چار سالوں سے طالبان حکومت کے ساتھ مسلسل رابطہ ے میں رکھا۔
پاکستانی نمائندے کا کہنا ہے کہ عالمی برادری کو افغان طالبان کی جانب سے کیے جانے والے وعدوں کی بنیاد پر توقعات تھیں کہ افغان سرزمین کو ایک بار پھر ’دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہ‘ نہیں بننے دیا جائے گا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ مسئلہ پوری دنیا اور پاکستان کو خطرے میں ڈال رہا ہے۔
عاصم افتخار کا کہنا ہے کہ رواں سال افغانستان سے شروع ہونے والے شدت پسند حملوں میں 1200 پاکستانی مارے گئے ہیں۔
انھوں نے دعوی کیا کہ 2022 سے اب تک افغانستان سے پاکستان میں داخل ہونے والے 214 حملہ آور بشمول خودکش بمباروں کو روکا جا چکا ہے۔
پاکستانی نمائندے نے دعویٰ کیا ہے کہ ٹی ٹی پی، بی ایل اے سمیت اور دیگر تنظیمیں افغانستان میں موجود ہیں اور طالبان کے بعض ارکان پر ان کی حمایت کا الزام لگایا۔
پاکستانی نمائندے نے کہا کہ اگر طالبان حکومت نے افغان سرزمین سے پاکستان میں ہونے والے حملے بند نہیں کیے تو اسلام آباد اپنے شہریوں اور اپنی خودمختاری کے تحفظ کے لیے ’تمام ضروری دفاعی اقدامات‘ کرے گا۔
پاکستانی نمائندے کا کہنا تھا کہ تمام تر مسائل کے باوجود پاکستان نے لاکھوں افغان مہاجرین کی میزبانی کی۔ ان کا کہنا تھا کہ اب جبکہ افغانستان میں جنگ ختم ہو چکی ہے، پاکستان کو امید ہے کہ تمام افغان پناہ گزین اپنے وطن واپس جائیں گے۔
انڈیا کا پاکستان پر افغانستان میں ’تجارتی دہشتگردی‘ کا الزام
سکیورٹی کونسل کے اجلاس میں انڈین نمائندے پروتھانی ہریش اپنی تقریر کے دوران حالیہ حملوں اور ’افغان خواتین، بچوں اور کھلاڑیوں کے قتل‘ کے بارے میں اپنی گہری تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ اقوام متحدہ کے چارٹر کا مکمل احترام اور بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کی جانی چاہیے۔
پاکستان کی جانب سے افغانستان کے ساتھ سرحد کی بندش کو ’تجارتی اور ٹرانزٹ دہشت گردی‘ قرار دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ لینڈ لاکڈ افغانستان کے رسائی راستوں کی جان بوجھ کر بندش عالمی تجارتی تنظیم (ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن) کے اصولوں کی صریحاً خلاف ورزی اور ایک کمزور ملک کے خلاف دھمکی اور جارحیت ہے۔


















































