افغانستان کی سکیورٹی فورسز نے سابق وزیرِ مہاجرین و وطن واپسی، خلیل الرحمٰن حقانی کے قتل کے مبینہ ماسٹر مائنڈ کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔
حکام کے مطابق گرفتار شخص کی شناخت میر حمزہ کے نام سے ہوئی ہے، جو ’عواب‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے اور اس کا تعلق صوبہ بغلان سے بتایا جا رہا ہے۔
سکیورٹی حکام کا کہنا ہے کہ ملزم نے دورانِ تفتیش اعتراف کیا ہے کہ وہ گزشتہ تقریباً پانچ برس سے داعش خراسان (آئی ایس کے پی ) سے وابستہ تھا اور تنظیم کے لیے بطور عسکری آپریٹو کام کرتا رہا۔
حکام کے مطابق میر حمزہ نے اعتراف کیا ہے کہ اس نے نہ صرف سابق وزیر خلیل الرحمٰن حقانی کے قتل کی منصوبہ بندی کی بلکہ اس دوران دیگر حملوں میں بھی ملوث رہا۔ سکیورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ ملزم نے تفتیش کے دوران یہ بھی بتایا کہ مختلف کارروائیوں کی منصوبہ بندی اور ہدایات اسے پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں موجود عناصر کی جانب سے موصول ہوتی رہی ہیں۔
افغان حکام کا کہنا ہے کہ تفتیش کا دائرہ وسیع کیا جا رہا ہے اور ممکنہ سہولت کاروں کی نشاندہی کی جا رہی ہے۔
خلیل الرحمٰن حقانی افغانستان میں ایک بااثر سیاسی و مذہبی شخصیت سمجھے جاتے تھے۔ وہ مہاجرین اور وطن واپس آنے والے افغان شہریوں کے معاملات سے متعلق وزارت کی قیادت کر رہے تھے۔ ان کے قتل کو افغان حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج بھی سمجھا گیا۔
داعش خراسان حالیہ برسوں میں افغانستان میں کئی بڑے حملوں کی ذمہ داری قبول کر چکی ہے۔ یہ گروہ خاص طور پر مذہبی، سیاسی اور حکومتی شخصیات کو نشانہ بناتا رہا ہے۔ ماہرین کے مطابق داعش خراسان، طالبان حکومت کو غیر مستحکم کرنے اور خطے میں خوف و ہراس پھیلانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔
افغان حکام بارہا یہ الزام عائد کرتے رہے ہیں کہ داعش خراسان کو پاکستان میں محفوظ پناہ گاہیں اور سہولت حاصل ہے۔


















































