مغربی دباؤ کے باوجود روسی صدر ولادیمیر پوٹن اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے دو طرفہ تجارت کو تیل اور دفاع سے آگے تک وسعت دینے اور تنوع پیدا کرنے پر اتفاق کر لیا ہے۔
بھارت، جو روسی ہتھیاروں اور سمندر کے ذریعے تیل کا دنیا کا سب سے بڑا خریدار ہے، نے صدر پوٹن کے دو روزہ سرکاری دورے کے دوران ان کے لیے ریڈ کارپٹ بچھایا۔ سن 2022ء میں روس کے یوکرین پر حملے کے بعد صدر پوٹن کا نئی دہلی کا یہ پہلا دورہ ہے۔
نریندر مودی نے بھارت اور روس کے دیرپا تعلقات کو ’’رہنما ستارہ‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا، ’’باہمی احترام اور گہرے اعتماد پر مبنی یہ تعلقات ہمیشہ وقت کا امتحان پاس کرتے رہے ہیں۔
انہوں نے صدر پوٹن کے ہمراہ صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا، ’’ہم 2030ء تک کے عرصے کے لیے اقتصادی تعاون کے پروگرام پر متفق ہوئے ہیں۔ یہ ہماری تجارت اور سرمایہ کاری کو زیادہ متنوع، متوازن اور پائیدار بنائے گا۔
مودی، جنہوں نے جمعرات کو ہوائی اڈے پر صدر پوٹن کو گرمجوشی سے گلے لگایا، نے یوکرین جنگ کے پرامن حل کے لیے بھارت کی حمایت کا بھی اعادہ کیا۔
جمعے کو صدر پوٹن کا صدارتی محل میں 21 توپوں کی سلامی کے ساتھ رسمی استقبال کیا گیا۔ روسی صدر کے ہمراہ ایک بڑا کاروباری اور سرکاری وفد بھی آیا ہے۔ دستخط کیے گئے معاہدوں میں دونوں ممالک نے بھارتیوں کو کام کے لیے روس منتقل ہونے میں مدد دینے، روس میں مشترکہ کھاد پلانٹ قائم کرنے، جبکہ زراعت، صحت اور شپنگ میں تعاون بڑھانے پر اتفاق کیا گیا ہے۔
روس اور بھارت نے اپنے دفاعی تعلقات کو ایک ’نئی شکل‘ دینے کا اعلان کیا ہے تاکہ نئی دہلی کی ہتھیاروں کے حوالے سے خود انحصاری کی کوششوں کو مدنظر رکھا جا سکے۔ یہ بات روسی صدر ولادیمیر پوٹن اور بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے ملاقات کے بعد ایک مشترکہ بیان جاری کرتے ہوئے بتائی گئی ہے۔
اس بیان میں مزید کہا گیا ہے، ’’بھارت کی خود انحصاری کی خواہشات کے جواب میں فی الوقت شراکت داری کو مشترکہ تحقیق و ترقی اور جدید دفاعی پلیٹ فارمز کی مشترکہ پیداوار کی طرف موڑا جا رہا ہے۔‘‘
مشترکہ اعلان کے مطابق بھارتی فوج کی آلات کی ضروریات پوری کرنے اور تیسرے دوست ممالک کو برآمد کرنے کے لیے مشترکہ منصوبے تشکیل دیے جائیں گے۔
جمعرات کو رات دیر گئے نشر ہونے والے ایک انٹرویو میں صدر پوٹن نےروسی ایندھن نہ خریدنے کے امریکی دباؤ کو چیلنج کیا۔
انہوں نے کہا، ’’اگر امریکہ کو ہمارا (نیوکلیئر) ایندھن خریدنے کا حق ہے تو بھارت کو یہ استحقاق کیوں نہیں ہونا چاہیے؟‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ وہ یہ معاملہ ٹرمپ سے زیر بحث لائیں گے۔



















































