بلوچ خواتین کی جبری گمشدگیوں کے خلاف مہم جاری

44

بلوچستان بھر میں غم و غصہ، انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر تشویش کا اظہار

بلوچستان میں بلوچ خواتین کی جبری گمشدگیوں کے خلاف بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے شروع کی گئی پانچ روزہ مہم بدستور جاری ہے، جس کے دوران مختلف حلقوں کی جانب سے شدید غم و غصے اور تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ انسانی حقوق کے کارکنان، متاثرہ خاندانوں، طلبہ اور سماجی تنظیموں کا کہنا ہے کہ جبری گمشدگیوں کا دائرہ اب بلوچ خواتین تک پھیل جانا ایک خطرناک اور ناقابلِ قبول رجحان ہے۔

شرکاء کے مطابق، جبری گمشدگی صرف ایک فرد کی گمشدگی نہیں بلکہ یہ پورے خاندان اور سماج کو اجتماعی اذیت سے دوچار کر دیتی ہے۔ بلوچ خواتین کو نشانہ بنانا نہ صرف بنیادی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے بلکہ یہ بلوچ معاشرے کی عزت، شناخت اور اجتماعی وجود پر حملہ تصور کیا جا رہا ہے۔

مہم کے دوران جاری وڈیو بیانات میں کہا گیا ہے کہ بلوچ خواتین نے خاموشی اختیار نہیں کی بلکہ انہوں نے مزاحمت اور جدوجہد کا راستہ اپنایا ہے۔ مقررین کا کہنا تھا کہ جبری گمشدگیاں آوازوں کو خاموش نہیں کر سکتیں اور نہ ہی سچ کو ہمیشہ کے لیے قید کیا جا سکتا ہے۔ انصاف کی آواز دبائی نہیں جا سکتی اور بلوچ خواتین اپنے حقوق کے لیے ڈٹی رہیں گی۔

معروف صحافی منیزہ جہانگیر نے مہم کے تناظر میں اپنے بیان میں کہا ہے کہ جبری گمشدگی پاکستان میں ایک سنگین جرم ہے اور یہ عمل ملکی قوانین اور بین الاقوامی انسانی حقوق کے معاہدوں کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ حالیہ عرصے میں بلوچستان میں خواتین کی جبری گمشدگیوں میں تشویشناک اضافہ ہوا ہے، جن میں ایک 27 سالہ حاملہ خاتون اور ایک 17 سالہ لڑکی کے کیسز شامل ہیں، جن کے اہلِ خانہ آج تک ان کے بارے میں لاعلم ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ایسے واقعات متاثرہ خاندانوں کو شدید ذہنی اذیت میں مبتلا کرتے ہیں اور ریاستی اداروں کے حوالے سے عوام میں بے اعتمادی کو بڑھاتے ہیں۔ انہوں نے زور دیا کہ اگر کسی پر الزام ہے تو ریاست کے پاس آئینی اور قانونی راستے موجود ہیں، جبری گمشدگیاں کسی صورت قابلِ جواز نہیں۔

مہم کے چوتھے روز کے حوالے سے شرکاء کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں جبری گمشدگیاں اب سڑکوں سے گھروں تک پہنچ چکی ہیں۔ طلبہ، مائیں اور حاملہ خواتین تک کو نشانہ بنایا جانا اجتماعی سزا کی ایک شکل ہے۔ مقررین کے مطابق ایک بلوچ خاتون کو زنجیروں میں جکڑا دیکھنا اب محض علامت نہیں بلکہ روزمرہ حقیقت بنتی جا رہی ہے۔

شرکاء نے مطالبہ کیا کہ تمام لاپتہ بلوچ خواتین کو فوری اور بحفاظت بازیاب کیا جائے، جبری گمشدگیوں کا سلسلہ بند کیا جائے اور بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیمیں اس سنگین صورتحال پر نوٹس لیں۔

مہم میں شامل افراد نے عالمی اداروں، اقوامِ متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں سے اپیل کی کہ وہ بلوچستان میں بلوچ خواتین کی جبری گمشدگیوں پر فوری توجہ دیں اور ریاستِ پاکستان سے جوابدہی کا مطالبہ کریں۔