ایک عہد کا اختتام – ٹی بی پی اداریہ
وائس فار بلوچ مسنگ پرسن کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ کے انتقال سے ایک عہد کا اختتام ہوا۔ ماما قدیر اور ان کے ساتھیوں نے پندرہ سال قبل بلوچستان میں سیاسی کارکنوں کی جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل کی ریاستی پالیسیوں کے خلاف پرامن جدوجہد کو ادارہ جاتی بنیاد فراہم کی اور انسانی حقوق کی پامالیوں کے خلاف ایک طویل اور تاریخی جدوجہد کا آغاز کیا۔ ماما قدیر کی صبر آزما جدوجہد نے سخت اور ناموافق حالات میں بھی جبری گمشدہ افراد کی بازیابی کی امید کو زندہ رکھا اور عملی مزاحمت کو دوسری نسل تک منتقل کیا، جو آج ایک منظم تحریک کی صورت میں جاری ہے۔
ماما قدیر، فرزانہ مجید، نصر اللہ بلوچ اور ان کے ساتھیوں نے جب دو ہزار نو میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسن کی بنیاد رکھی تو اس وقت بلوچستان میں ریاستی جبر اپنے عروج پر تھا۔ سیاسی کارکنوں کی جبری گمشدگیوں کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہو چکا تھا اور ماما قدیر کا بیٹا جلیل ریکی بھی ان متاثرین میں شامل تھا۔ جبری گمشدگیوں کے بعد ماورائے عدالت قتل اور مسخ شدہ لاشوں کا سڑکوں کے کنارے، ویران علاقوں اور جنگلات سے ملنے کا آغاز ہوا، جو فیک انکاؤنٹر کی صورت میں آج بھی جاری ہے۔ 24 نومبر 2011 کو ماما قدیر کے بیٹے جلیل ریکی کی گولیوں سے چھلنی لاش کیچ کے علاقے مند سے برآمد ہوئی۔ بیٹے کی شہادت کے بعد ماما قدیر نے جدوجہد ترک کرنے کے بجائے دوسروں کی امید بننے کا فیصلہ کیا اور جبری گمشدہ افراد کی بازیابی کی تحریک کو منظم کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔
بلوچستان کے کٹھن حالات میں ماما قدیر اور جبری گمشدہ افراد کے اہل خانہ نے ریاستی دھمکیوں، جبر اور رکاوٹوں کے باوجود دو ہزار تیرہ میں کوئٹہ سے کراچی اور پھر اسلام آباد تک دو ہزار کلومیٹر پر مشتمل ایک تاریخی پیدل لانگ مارچ کیا۔ اس پرامن مزاحمت کے ذریعے انہوں نے دنیا کو بلوچستان کے سنگین انسانی حقوق بحران سے آگاہ کیا۔ انصاف کے حصول کے لیے لانگ مارچ، دھرنوں اور احتجاج کا یہ سلسلہ کئی برسوں پر محیط رہا۔ کوئٹہ پریس کلب کے سامنے قائم جبری گمشدہ افراد کے احتجاجی کیمپ کو بارہا نذر آتش کیا گیا، ماما قدیر کو قتل کی دھمکیاں دی گئیں، ان کے گھر پر حملہ کیا گیا اور قریبی رشتہ داروں کو جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا گیا۔ اس کے باوجود ماما قدیر نے کبھی ہمت نہیں ہاری اور بڑھاپے اور بیماری کے باوجود پندرہ سال تک جبری گمشدہ افراد کی بازیابی کی امید کو زندہ رکھا۔
ماما قدیر کی پرامن مزاحمت، طویل لانگ مارچ اور ثابت قدمی بلوچ تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔ وہ انصاف اور انسانی حقوق کے حصول کی جدوجہد میں آخر دم تک ثابت قدم رہے۔ ان کی قربانی، حوصلہ اور صبر آزما جدوجہد قابل تقلید ہے۔ ایک پوری نسل ماما قدیر کی جدوجہد کے سائے میں پروان چڑھی ہے اور آج وہ اسی مزاحمتی راستے پر گامزن ہیں۔ ماما قدیر کی رحلت سے بلوچستان کی سیاسی مزاحمتی تحریک میں ایک خلا ضرور پیدا ہوگا، تاہم اس جدوجہد کے علمبردار ان کے مشن کو نئی توانائی اور عزم کے ساتھ جاری رکھیں گے۔












































