بلوچ یکجہتی کمیٹی کے بیان میں کہا گیا ہے کہ بلوچستان میں ریاستی حمایت یافتہ ڈیتھ اسکواڈز کے ہاتھوں دو بلوچ نوجوانوں عبدالرحمن اور بہادر بلوچ کے بہیمانہ ماورائے عدالت قتل کی شدید مذمت کرتی ہے۔
بیان کے مطابق یہ واقعات نومبر 2025 کے آغاز میں ضلع کچ کے مختلف علاقوں میں پیش آئے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ 2 نومبر 2025 کو عبدالرحمن، جو 16 سالہ طالبعلم اور تمپ، کچ کا رہائشی تھا، کو ریاستی سرپرستی میں کام کرنے والے مسلح جتھوں نے ایک دکان کے اندر فائرنگ کر کے شہید کر دیا۔ یہ دلخراش واقعہ اُس وقت پیش آیا جب عبدالرحمن اپنے والد طارق نور کے سامنے گولیوں کا نشانہ بنا۔ عبدالرحمن ایک ہونہار اور محنتی طالبعلم تھا جو سرمائی تعطیلات کے دوران اپنے گھر آیا ہوا تھا۔ اس کا قتل بلوچستان میں طلبہ اور نوجوانوں کو منظم انداز میں نشانہ بنانے کی پالیسی کا تسلسل ہے۔
بیان کے مطابق دوسرے واقعے میں، 1 نومبر 2025 کو بہاد بلوچ، ولد رحیم بخش، جو تمپ کے رہائشی اور پیشے کے لحاظ سے مزدور تھا، کو ریاستی حمایت یافتہ ڈیتھ اسکواڈز نے دہات کے علاقے میں قتل کر دیا۔ بہاد بلوچ روزگار کے سلسلے میں گوادر کے قریب سرحدی علاقے کنٹانی میں تیل کی ترسیل کا کام کرتا تھا تاکہ اپنے گھر کا گزر بسر کر سکے۔
مقامی ذرائع کے مطابق، مسلح جتھوں نے اُس کو راستے میں روک کر اُس کی موٹر سائیکل، قیمتی اشیاء اور رقم چھین لی، اور بعد ازاں اُسے قتل کر دیا۔ قتل کے بعد قاتلوں نے واقعے کو خودکشی ظاہر کرنے کی کوشش کی اور اُس کی لاش کو ایک مسجد کے قریب رسی سے لٹکا کر چھوڑ دیا۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کے مطابق، یہ واقعات بلوچستان میں جاری ریاستی جبر، ماورائے عدالت قتل اور “کل اینڈ ڈمپ” پالیسی کی تازہ مثال ہیں، جن کے ذریعے بلوچ عوام کو خوفزدہ کرنے اور سیاسی آوازوں کو دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی اقوام متحدہ، بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں اور عالمی میڈیا سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں، جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل کے سلسلے کا نوٹس لیں اور ذمہ دار عناصر کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے مؤثر اقدامات کریں۔

















































