’کیا ہم پاکستان کی سکیورٹی کے ذمے دار ہیں‘ – افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی

1

پاکستان اور افغانستان کے درمیان مذاکرات کی ناکامی کے بعد ترکی نے اپنے وزیر خارجہ اور وزیر دفاع سمیت دیگر اعلی حکام کو اسلام آباد بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔

خبر رساں ادارے روئٹرز اور ’ٹی آر ٹی‘ کے مطابق اس بات کا اعلان ترک صدر رجب طیب اردغان نے اتوار کو آذربائیجان کے شہر باکو سے استنبول واپسی پر صحافیوں سے گفتگو کے دوران کیا۔

خبر رساں اداروں کے مطابق آذربائیجان کے شہر باکو میں پاکستانی وزیرِ اعظم شہباز شریف سے ملاقات کے بعد صدر اردغان نے کہا کہ تین رکنی وفد کے دورے کا مقصد ’دونوں ملکوں کے درمیان جلد از جلد مستقل جنگ بندی اور امن کا قیام ہے۔‘

ترکی کی انادولو نیوز ایجنسی کے مطابق صدر اردغان نے کہا کہ ملک کے وزیر خارجہ ہاکان فیدان، وزیر دفاع یاشار گولر اور انٹیلیجنس چیف ابراہیم قالن افغانستان اور پاکستان کے درمیان جاری کشیدگی پر بات چیت کے لیے اسلام آباد کا دورہ کریں گے۔

ترک صدر کی جانب سے یہ فیصلہ ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب جمعہ کی شب پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے افغانستان کے ساتھ مذاکرات ناکام رہنے کا اعلان کیا تھا۔

دونوں ممالک کے درمیان گذشتہ ماہ ہونے والی سرحدوں جھڑپوں کے بعد دوحہ اور استنبول میں مذاکرات کے تین ادوار بے نتیجہ رہے ہیں جس کے بعد فریقین کی جانب سے ایک دوسرے کو ان مذاکرات کی ناکامی کا ذمہ دار قرار دیا گیا ہے۔

پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے مذاکرات کی ناکامی کے بعد متنبہ کیا تھا کہ اگر افغانستان کی سرزمین سے دوبارہ پاکستان میں کارروائی ہوئی تو پھر پاکستان دوبارہ افغانستان کے اندر کارروائی سے گریز نہیں کرے گا۔

’کیا ہم پاکستان کی سکیورٹی کے ذمے دار ہیں‘

اتوار کو کابل میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی نے بھی مذاکرات کی ناکامی پر تفصیلی بیان دیا ہے۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ مذاکرات میں ناکامی پاکستان کے ’غیر معقول اور ناقابل عمل مطالبات‘ کی وجہ سے ہوئی۔

اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان نے استنبول مذاکرات کے دوران اس بات کی ضمانت مانگی تھی کہ اب پاکستان میں دہشت گردی کے مزید واقعات نہیں ہونے چاہییں۔

اُن کا کہنا تھا کہ ایک موقع پر تو یہ بھی کہا گیا کہ ٹی ٹی پی گروپس کو افغانستان منتقل کر دیا جائے۔

امیر خان متقی کا کہنا تھا کہ ’پاکستان کا کہنا تھا کہ ہمیں ضمانت دی جائے کہ پاکستان میں اب دہشت گردی کا ایک بھی واقعہ نہیں ہو گا۔ تو کیا ہم پاکستان کی سکیورٹی کے ذمہ دار ہیں؟ کیا ہمارے پاس وہاں فوج ہے؟ کیا ہمارے پاس وہاں پولیس یا فوج ہے جو سکیورٹی یقینی بناتی ہے؟‘

امیر خان متقی کا کہنا تھا کہ ایک طرف پاکستان ٹی ٹی پی پر سرحد پار سے آ کر حملے کے الزامات عائد کرتا ہے، تو دوسری جانب یہ مطالبہ بھی کر رہا ہے کہ اس گروپ کے ارکان کو پاکستان سے افغانستان منتقل کیا جائے۔