بلوچ یکجہتی کمیٹی کے اسیر رہنماء ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے جیل سے بلوچ نوجوانوں کے نام ایک پیغام جاری کیا ہے۔ پیغام میں کہا گیا ہے:
“میرے فکری ساتھیوں!
ان دیواروں کے اندر وقت سست پڑ جاتا ہے، مگر سوچ رکتی نہیں۔ میں تمہارے اندر اسی سوچ کی حفاظت اور اس کے آگے بڑھنے کی ذمہ داری دیکھتی ہوں۔ ہماری زمین کی تاریخ محض فتوحات یا شکستوں کا ریکارڈ نہیں، یہ ایک مستقل بیداری کی داستان ہے: کبھی کتاب سے جنم لینے والی، کبھی سوال سے پروان چڑھنے والی، اور کبھی ہر دور کی للکار سے پھوٹنے والی بیداری ہے۔ آج بلوچستان جھلس رہا ہے مگر تاریخ ہمیں سکھاتی ہے کہ ظلم کے خلاف کھڑے ہونے کے لیے جدوجہد ناگزیر ہوتی ہے۔ ہماری حالیہ تحریک دراصل جبر کے نظام کے خلاف وہ لڑائی ہے جس کی بھاری ذمہ داری خاص طور پر تمہاری نسل پر ہے۔
ریاستی جبر، جبری گمشدگیاں اور محدود وسائل کے باوجود جب تم تعلیم حاصل کر رہے ہو تو یہ ہر بلوچ نوجوان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ قومی تحریک سے وابستہ ہو اور اپنی ذمہ داریاں نبھائے۔ میں سمجھتی ہوں کہ علم صرف الفاظ یاد کرنے کا نام نہیں؛ علم وہ نظر ہے جو حقیقت کو پہچانے، سوال اٹھانے اور نظام کو پرکھنے کی طاقت دیتا ہے جبکہ زندہ قومیں تعلیم کو قومی ترقی کا ذرائع بناتی ہے، نہ کہ تعلیم محض ڈگری حاصل کرنے کا ذریعہ سمجھتی ہیں۔ آپ نوجوان فلسفہ پڑھو تاکہ سوال اٹھانے کا طریقہ سیکھو۔ سیاست پڑھو تاکہ سمجھ سکو کون تم پر حکمرانی کرتا ہے۔ تاریخ پڑھو تاکہ جان سکو واقعات کیسے تراشے جاتے ہیں، کس کی آواز لکھی جاتی ہے اور کس کی خاموشی تاریخ میں دفن کر دی جاتی ہے۔ ٹیکنالوجی اور سائنس سے ڈرو نہیں، سائنس اور ٹیکنالوجی کو صرف روزگار کا ذریعہ نہیں بناؤ بلکہ انہیں بلوچ قومی بقاء اور قومی ترقی کا ذریعہ بناؤ۔
میرے نوجوانوں!
حوصلہ وہ چراغ ہے جو اندھیرے وقتوں میں راستہ دکھاتا ہے۔ ہمت وہ قوت ہے جو انسان کو ناممکن کو ممکن کرنے کی جرات دیتی ہے۔ یاد رکھو، جب دل میں یقین زندہ ہو تو زنجیریں بھی راستہ دے دیتی ہیں۔ تمہاری ہمت وہ دیوار ہے جس سے خوف ٹکرا کر واپس پلٹتا ہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ قومیں تلوار سے نہیں، حوصلے سے زندہ رہتی ہیں۔ وہ نوجوان جو ظلم کے سائے میں بھی خواب دیکھنے کی ہمت رکھتا ہے، وہی تاریخ کا دھارا بدلتا ہے۔ تمہارا کام صرف پڑھنا یا احتجاج کرنا نہیں، تمہارا کام ہے امید کو زندہ رکھنا، کیونکہ ناامیدی کسی قوم کی سب سے بڑی شکست ہے۔
یاد رکھو، حوصلہ صرف نعرہ نہیں، ایک مسلسل عمل ہے۔ وہ تب بھی زندہ رہتا ہے جب سب دروازے بند ہوں، جب آوازیں دبادی جائیں، اور جب امید کی کرن مدھم ہو جائے۔ وہ نوجوان جو ان حالات میں بھی سچ پر ڈٹا رہے، وہی مزاحمت کا اصل سپاہی ہے۔
ہمت وہ نہیں کہ تم دشمن کے خلاف للکار دو، بلکہ ہمت یہ ہے کہ تم اپنی کمزوریوں، خوف، اور مایوسیوں کو شکست دو۔ وہ شخص جو خود پر قابو پا لیتا ہے، وہ پوری دنیا کو بدلنے کی طاقت رکھتا ہے۔ ہار صرف تب ہوتی ہے جب تم لڑنا چھوڑ دو، اور بلوچ نوجوان نے لڑنا کبھی نہیں چھوڑا۔
باشعور بلوچ نوجوانوں
ہر دور میں سب سے بڑی مزاحمت سوچنے کی جرات رہی ہے۔ مظلوم قومیں جب سوال اٹھاتی ہیں تو دیواریں ہلتی ہیں۔ جب الفاظ کے معنی عوام خود طے کرتے ہیں تو شعور آزاد ہوتا ہے۔ جو ذہن سوچنے سے انکار کر دے وہ اپنی ہی قید بن جاتا ہے۔
اپنی سوچ کو بیدار رکھو، اس کی حفاظت کرو، اور اسے خوف یا لالچ میں فروخت نہ ہونے دو۔ زمینی غلامی سے خطرناک ذہنی غلامی ہے؛ اس غلامی سے نجات کے لیے علم کو عمل کے ساتھ جوڑنا ضروری ہے۔ ذہنی آزادی کی راہ میں اپنی شناخت کو اپنی طاقت بناؤ، تمہاری مادری زبان، تمہاری ثقافت، تمہاری مزاحمت کا فلسفہ تمہارا سب سے مضبوط اظہار ہیں۔
مزاحمت کا مطلب ضبط، صبر اور انصاف کے ساتھ کھڑا رہنا ہے۔ اگر تم کسی بات کے خلاف ہو تو پہلے اس کے حقائق کو پوری دیانت سے سمجھو۔ اگر کسی کے حامی ہو تو اس کے ممکنہ نتائج قبول کرنے کا حوصلہ بھی رکھو۔ مزاحمت کا عظیم اصول تحمل ہے؛ جو ضبط رکھتا ہے وہ اپنی منزل تک پہنچتا ہے۔
میرے کاروان کے دوستوں!
جب ماں کا بیٹا برسوں لاپتہ ہو، جب عورتیں جبری طور پر اٹھا لی جائیں، جب گاؤں خوف کی گرفت میں آ جائیں، اور جب بچوں کے خواب چھن جائیں، تو یہ معاملات صرف سیاسی نہیں رہتے بلکہ انسانیت کی شکست بن جاتے ہیں۔
کیا ہم اس شکست کو قبول کریں گے؟ نہیں! ہمارے شہیدوں کی قربانیاں بتاتی ہیں کہ ہماری قوم ظلم کے سامنے اپنی سر نہیں جھکا سکتی ہے۔ علم، عدل اور مضبوط آواز کے ذریعے اپنے لوگوں کی عزت بحال کرو۔ تمہاری جدوجہد کا مرکز نفرت نہیں بلکہ وقار ہو؛ تمہارا احتجاج شور نہیں بلکہ استقامت ہو۔ جب تم اپنا قلم، دلیل اور کردار مظلوم کے ساتھ کھڑا کرتے ہو تو تمہاری گواہی کسی عدالتی فیصلے سے کئی گنا طاقتور بن جاتی ہے۔
میرے بلوچ قوم!
اس میڈیا اور بیانیہ سازی کے دور میں ہر خبر ایک دعویٰ ہوتی ہے اور ہر تصویر ایک انتخاب۔ بیانیے کو پڑھنا سیکھو: خبر کے ماخذ، زبان کے اشارے اور منظر کے چھپے ہوئے حصوں کو نوٹ کرو۔ جس بات کو سب کہہ رہے ہوں، اسے سب سے زیادہ پرکھو۔ ظالم اور مظلوم کے اس تصادم میں فتح و شکست طاقت کے توازن پر منحصر ہوتی ہے، مگر دنیا کی تاریخ بتاتی ہے کہ مظلوم اقوام محدود وسائل کے باوجود بہادری دکھا کر تبدیلیاں لائی ہیں۔ ہماری مزاحمتی تحریک نے کئی بار ریاستی بیانیے کو بے نقاب کیا ہے، یہ ہمارا فخر ہے اور ہماری امید بھی۔
اپنی صلاحیتوں کو قوم کی خدمت میں لگاؤ۔ جو میڈیکل کے طالب علم ہیں وہ اپنے لوگوں کا علاج کریں؛ جو قانون پڑھتے ہیں، جو کمپیوٹر سائنس کے طالب علم ہیں وہ اپنے علاقے کے بچوں کو انفارمیشن ٹیکنالوجی اور کمپیوٹر سائنس کی تعلیم دیں؛ جو ادب کے طالب علم ہیں وہ بزرگوں کی کہانیاں لکھیں تاکہ یادداشت مٹی میں دفن نہ ہو۔ یہ سب خدمت تمہاری مزاحمت ہے، کیونکہ یہی زندگی کو مضبوط بناتا ہے اور ظلم کا مقابلہ کرتی ہے۔
میں چاہتی ہوں کہ تم اپنی زندگی کے لیے تین وعدے لکھو:
۱- تم سچ کی تلاش کبھی نہیں چھوڑو گے۔
۲- تم اپنی صلاحیتیں قوم کے کام میں لگاؤ گے، چاہے وہ قدم کتنا ہی چھوٹا کیوں نہ ہو۔
۳- تم قومی زبان اور شناخت کے احترام کو اپنی روزمرہ زندگی کا حصہ بناؤ گے۔
میں قید میں ہوں مگر میری سوچ آزاد ہے۔ تم باہر ہو، اپنی سوچ کی آزادی کی حفاظت کرو۔ اپنے حلقوں میں علم کے چراغ جلاؤ، بحث کے دائرے قائم کرو، اپنی بولی میں کتابیں لکھو، اپنے آپ سے سوال کرو اور اپنے عمل سے جواب دو۔ یاد رکھو، حوصلہ وہ روشنی ہے جو قید کی دیواروں سے بھی باہر نکل جاتی ہے۔ یہی تمہارا سب سے بڑا فرض ہے، یہی تمہاری اصلی مزاحمت ہے۔”
ماہ رنگ بلوچ
ہدہ جیل کوئٹہ
30 اکتوبر 2025

















































