لمحے کی یاد، صدیوں کا سفر | پدائی رشید بزدار اور ماسٹر سفر خان کے نام – کاکا انور

1

لمحے کی یاد، صدیوں کا سفر | پدائی رشید بزدار اور ماسٹر سفر خان کے نام

تحریر: کاکا انور

دی بلوچستان پوسٹ

آج میں آپ کی خدمت میں اُس رفیقِ کار کا ذکرِ خیر کرنے کی جسارت کر رہا ہوں جو نہ صرف ہماری محفل کی شان ہے بلکہ انقلابِ فکر کا روشن چراغ بھی ہے۔ یہ وہ ساتھی ہیں جن کے دل میں معصومیت کی اجلاہٹ، چہرے پر اخلاق کی چمک اور عمل میں مضبوط کارکردگی یکجا نظر آتی ہے۔ جنہوں نے انقلاب کو ایک الگ نام اور پہچان دی۔ اپنے کردار سے عمل کے معنی بدل دیے اور ثابت کیا کہ عمل ہی کردار کی اصل شناخت ہے۔

ان کی معصومیت ایسی تھی جیسے وہ فطرت ہی سے ہر دل میں جگہ بنانے کا ہنر لے کر آئے ہوں۔ یہ وہ ہستیاں ہیں جنہوں نے ہر ذمہ داری نہ صرف پوری کی بلکہ اپنی محنت اور لگن سے انقلاب برپا کر دکھایا۔ اگر انقلاب کو چہرہ دیا جائے تو یقیناً میرے یہ دوست انقلاب کا چہرہ ہوں گے۔ سچے، معصوم، بااخلاق اور بے مثال کارگزاری کے آئینہ دار۔ ہر مقام پر اپنی وفاداری، مستقل مزاجی، سنجیدگی اور محنت کا ثبوت پیش کرتے ہیں۔

ہر جہدکار، کردار اور انقلابی اپنی جگہ الگ مقام اور شناخت رکھتا ہے، مگر کچھ شخصیات میں انقلاب انسانی روپ دھار لیتا ہے۔ ان میں بھی وہ شخصیت موجود تھی جو انہیں انقلابی کردار کا حقیقی معنی دیتی تھی۔

ایسے دوست فرد نہیں بلکہ فکر ہوتے ہیں۔ وہ فکر جو ظلم کے خلاف کھڑی ہوتی ہے، جو سچائی کا پرچم بلند رکھتی ہے اور ہر دل میں امید کا چراغ روشن کرتی ہے۔ ایسے ساتھی وقت کے طوفانوں کا مقابلہ کرتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں۔ یقیناً ایسے دوست ہی حقیقی انقلابی سنگت کہلاتے ہیں، اور ایسے کردار صرف جہد و جدوجہد کے اندر ہی جنم لیتے ہیں، جن کے اندر تاریخ کا رخ موڑ دینے کی صلاحیت ہوتی ہے۔

شہید ماسٹر سفر خان سے میری ایک مختصر سی ملاقات دوستوں کے اوتاق میں ہوئی، جہاں وہ فدائی رشید بزدار سے ملنے آئے تھے۔ فدائی رشید نے ہمارا تعارف کروایا۔ شہید ماسٹر سفر خان کی میٹھی زبان اور خوش مزاجی نے مجھے اس طرح متاثر کیا جیسے ہم آج نہیں بلکہ بچپن سے ساتھی رہے ہوں۔ ہنسی مذاق میں وقت یوں گزرا کہ پتہ بھی نہ چلا۔ پھر ضروری کام کے سلسلے میں ہم سے رخصت ہوکر اپنے سفر پر روانہ ہوئے۔ کچھ ہی دن بعد نیوز میں ماسٹر سفر خان کی تصویر اور شہادت کی خبر نے دل چیر کر رکھ دیا۔

فدائی رشید بزدار سے ملاقات میری خوش نصیبی تھی۔ ہم نے کافی وقت ایک ساتھ گزارا جو میری زندگی کے یادگار لمحوں میں شامل ہے۔ ہم روز اکٹھے بیٹھتے، دیوان اور مجلس ہوتی، اور میں نے ان سے بہت کچھ سیکھا۔ وہ نہایت نرم مزاج انسان تھے۔ حقیقی ساتھی ہونے کے باوجود بچوں پر شفقت، کتابوں کا شوق، علاقائی حالات اور وقت کے ظلم و ستم کی روز کی کہانیاں—سب ان کی محفل کا حصہ تھے۔

وقت گزرتا گیا۔ ایک دن کچھ اور دوست بھی آ گئے۔ فدائی رشید کے ساتھ گزرا ہوا وقت مجھے بہت یاد آتا ہے۔ آج بھی یاد ہے کہ انہیں رخصت کرتے وقت دل بہت افسردہ تھا، مگر جنگ اکثر دلوں کو افسردہ کرتی ہے کیونکہ جنگ ایک تکلیف دہ عمل ہے اور عام انسانی رویوں سے بالکل مختلف۔

جنگ میں خوشی اور غم ایک ساتھ سفر کرتے ہیں۔ کسی دوست کے ملنے کی خوشی اور اس کے ساتھ گزرا وقت جس طرح زندگی میں رنگ بھرتا ہے، اسی طرح اس کے بچھڑنے کا غم بھی شدت سے دل کو تکلیف دیتا ہے۔ جدوجہد کے دوران جب کسی ساتھی کی شہادت ہوتی ہے تو جس طرح اس کا غم دل کو گھیر لیتا ہے، اسی طرح اس کے کردار سے محبت بھی بڑھ جاتی ہے، کیونکہ وہ تاریخ میں ہمیشہ کے لیے امر ہو جاتا ہے۔ کچھ وقت گزرنے کے بعد ایک اور خبر میں شہید رشید بزدار کی تصویر سامنے آئی، اور معلوم ہوا کہ میرے دوست نے جامِ شہادت نوش کیا ہے۔ وہ مجید بریگیڈ کے فدائی بھی تھے۔

یہ درد دل جو پہلے فدائی سربلند کے نام سہہ چکا ہے، آج پھر آہ بن کر نکل آیا—کہ وطن کی آزادی کی جنگ میں امر ہونا یقیناً کردار کی معراج ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔