فدائی سنگت رشید بزدار: کوہِ سلیمان کا چراغ – سمی بلوچ

78

فدائی سنگت رشید بزدار: کوہِ سلیمان کا چراغ

تحریر: سمی بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

وطن سے محبت کا جذبہ ہر ایک کے سینے میں ہوتا ہے، مگر اسی جذبے کو اتنا بڑا کر دینے اور اپنی جان وطن و لوگوں کے لیے قربان کر دینے کی ہمت کم ہی میں ہوتی ہے۔ جیسے کسی گلشن کا ایک خوشبودار پھول اپنی دلکشی سے پورے منظر کو روشن کر دیتا ہے، ویسے ہی رشید نے اپنی قربانی سے اس سرزمین کی شان میں اضافہ کیا۔

یہ خطہ بلوچستان قدیم عظمتوں، قدرتی وسائل اور شان دار جغرافیے کا حامل ہے۔ کوہِ سلیمان کا پہاڑی سلسلہ اس زمین کو ایک منفرد وقار بخشتا ہے، تاریخ کے سیاہ اور روشن صفحات کھولیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس دھرتی کی ماؤں نے ہمیشہ بہادر اور دِلِ شجاع بیٹے پیدا کیے ہیں۔ انہی بہادروں میں سے ایک نام ہمارے میرل رشید کا بھی ہے۔ ان کی بہادری اور شہادت نے ثابت کر دیا کہ یہ ماؤں ایسے فرزند جنم دیتی ہیں جو وطن کی حفاظت کے لیے اپنی جان نچھاور کرنے سے دریغ نہیں کرتے ہیں۔

رشید جس کا اصلی نام والد نے رکھا۔ ابتدا سے ہی سنجیدہ مزاج اور خوش طبع تھے۔ گفت و شنید میں محتاط، بات کو غور سے سنتے اور پھر موزوں جواب دیتے۔ انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم ڈیرہ غازی خان میں حاصل کی اور تعلیمی سرگرمیوں میں نمایاں رہے۔ سیاست میں گہری دلچسپی رکھتے تھے۔ جب پاکستان کی سیاست کی بات آتی تو ان کے چہرے پر گہرا غصّہ نظر آتا اور بلوچستان کے متعلق بات ہو تو ان کے پاس دلیلوں کے ڈھیر ہوتے، جو سننے والوں کو متاثر کر دیتے۔

رشید زیادہ تر وقت اپنے آبائی گاؤں جو ڈیرہ غازی خان سے کچھ فاصلہ پر ہے میں کوہِ سلیمان کے بلند و بالا پہاڑوں میں گزارتے، گھر کے معمولی کام کرتے اور فطرت کے ساتھ اپنی روح کو بحال رکھتے۔

غالباً 2019 میں انہوں نے بی ایل اے کی صفوں میں شمولیت اختیار کی۔ اگلے چند برسوں میں انہوں نے بلوچستان کی تاریخ، حقیقتوں اور وہاں کے مظالم کا گہرا مطالعہ کیا اور وطن سے محبت اتنی گہری ہو گئی کہ ہر وقت وہ اپنی جان قربان کرنے کو تیار رہتے۔

تقریباً چھ یا سات ماہ کے بعد وہ دوبارہ اپنی نیک منزل کی طرف روانہ ہوئے اور اس بار ان کے ہمسفر بھی ان کے ساتھ تھے۔ جنگ کے میدان میں وہ نہ صرف ہتھیار چلانے کے ماہر تھے بلکہ ایک باصلاحیت سپاہی کے طور پر مختلف محاذوں پر منتخب کیے جاتے اور بہادری سے اپنا فرض ادا کرتے۔ جو میدان وہ قبول کرتے، دشمن کو پسپا کر کے واپس لوٹ آتے۔ 19 جولائی 2025 کو انہیں نوشکی کے علاقے میں تعینات کیا گیا۔ رشید جان اکثر جنگ کے لیے نکل جاتے ہیں اور میدان جنگ میں رہتے ہیں، اس لیے میں نے اُن سے درخواست کی کہ وہ مجھے اپنی خیریت کا صرف ایک میسج یا پیغام دے دیں، کیونکہ مجھے ان کی بہت فکر ہوتی ہے۔

سمی بلوچ نے کپکپاتے ہونٹوں اور آبدیدہ آنکھوں کے ساتھ یہ سوال کیا ہوگا۔ یقین مانیے، جب میں یہ بات لوگوں کو بتاتا ہوں اور یہ الفاظ اس سفید صفحے پر لکھ رہا ہوں، کئی بار میری آنکھیں اشکبار ہو گئی ہیں اور ہاتھ لکھنے سے رک گئے ہیں۔

ہائے، وہ لمحہ کیسا ہوگا جب یہ الفاظ سمی کے منہ سے نکلے ہوں اور رشید جان کے کانوں تک پہنچے ہوں! یہ حقیقت ہے کہ شہادت ایک بہت بڑا مرتبہ اور مقام ہے، لیکن چاہے میدان جنگ ہو یا زندگی کا سفر، دو محبت بھرے دلوں کی جدائی کے لمحے میں ہوائیں رک جاتی ہیں، رگوں میں دوڑتا خون ساکن ہو جاتا ہے اور دل کی دھڑکنیں تھم جاتی ہیں۔

سمی بلوچ کے یہ الفاظ سنتے ہی رشید جان نے پلٹ کر سمی کے چہرے کو دیکھا۔ زرد چہرہ، آنکھوں میں اشک، اور کانپتے ہونٹ واضح کر رہے تھے کہ خدا کی گواہی کے ساتھ یہ شاید ان کی آخری ملاقات تھی۔

اپنے ہمسفر کے سوال کا جواب دیتے ہوئے، رشید جان نے سمی بلوچ سے کہا “پاگل! تم ایک جنگ میں ہو، ایک مقصد کے لیے ہو۔ تمہیں میری خیریت کی خبر نہیں بلکہ میری شہادت کا انتظار کرنا چاہیے۔”

یہ کہہ کر فدائی رشید میرل بزدار اپنے مقصد کی طرف چل پڑے۔

نوشکی کے علاقے میں جنگ کے مقام پر، رشید جان اپنے مورچے میں ایسے بیٹھے تھے جیسے شیر اپنے شکار کو دیکھنے اور چھپنے کے انتظار میں ہو۔ اچانک گولی کی آواز آئی اور ایک گولی ان کے قریب سے گزری۔ اس کے بعد دونوں طرف سے شدید فائرنگ شروع ہو گئی۔ رشید جان دشمنوں کو نشانہ بناتے رہے اور کئی دشمنوں کو ہلاک کیا۔

دورانِ جنگ، جب رشید نے اپنے اسلحہ اور گولیوں پر نظر ڈالی، تو وہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ گولیوں کی تعداد بہت کم تھی۔ دشمن کے دو سپاہی ان کی جانب بڑھ رہے تھے۔ جنگ کے اصول اور وطن سے وفاداری کے جذبے کے تحت، رشید نے اپنے ہی اسلحہ کی آخری گولی اپنے جسم کے پار کر دی۔

اسی طرح، انہوں نے شہادت کا عظیم مرتبہ حاصل کیا اور اپنے وطن کی بقا کے لیے اپنی جان قربان کی۔ رشید جان نے اپنے ملک کے تمام نوجوانوں کو یہ پیغام دیا کہ دلیری اور بہادری سے وطن کی دفاع کے لیے شہید ہونا سب کے لیے ممکن اور قابلِ فخر ہے۔

جیسے کہ کہتے ہیں:
“میں اکیلا ہی چلا تھا جانبِ منزل، مگر لوگ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا۔”


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔