بنگلہ دیش کی ایک عدالت نے مظاہرین کے خلاف حکومتی کریک ڈاؤن سے متعلق مقدمے میں سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کو ’انسانیت کے خلاف جرائم‘ کا مرتکب قرار دیتے ہوئے انھیں سزائے موت سنائی ہے۔
اقتدار سے بے دخلی کے بعد سے شیخ حسینہ انڈیا میں موجود ہیں اور اس کیس کا فیصلہ ان کی غیر حاضری میں سنایا گیا ہے۔
ان پر گذشتہ سال طلبہ کے احتجاجی مظاہروں کے خلاف کریک ڈاؤن کا حکم دینے کا الزام تھا۔ اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق ان مظاہروں کے دوران 1400 افراد کی ہلاکت ہوئی تھی۔ گذشتہ ہفتے بی بی سی کو دیے ایک انٹرویو میں شیخ حسینہ نے اپنے خلاف عائد کردہ الزام کی تردید کی تھی اور کہا تھا کہ ان کے خلاف پہلے سے طے شدہ فیصلہ سنایا جائے گا۔
پیر کو بنگلہ دیش کی سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ کے خلاف فیصلہ سنائے جانے سے قبل دارالحکومت ڈھاکہ میں سینکڑوں مظاہرین جمع ہوئے تھے۔ اس دوران ڈھاکہ میں سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے۔
پراسیکیوٹرز نے عدالت سے شیخ حسینہ کو سزائے موت دینے کی استدعا کر رکھی ہے جبکہ شیخ حسینہ خود پر عائد کردہ الزامات کی تردید کرتی ہیں۔
پیر کو عدالت میں کیس کے تین ملزمان میں سے صرف ایک موجود تھا۔ سابق آئی جی پولیس چوہدری عبداللہ المامون نے صحت جرم قبول کیا تھا اور وہ سلطانی گواہ بن گئے تھے۔
شیخ حسینہ اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد سے انڈیا میں رہائش پذیر ہیں۔ جبکہ سابق وزیر داخلہ اسد الزمان خان کمال بھی روپوش رہے ہیں۔
شیخ حسینہ پر کیا الزام تھا؟
کئی ماہ تک جاری رہنے والے ٹرائل میں پراسیکیوشن کا دعویٰ رہا ہے کہ شیخ حسینہ نے گذشتہ سال جولائی میں اپنی حکومت کے خلاف شروع ہونے والے مظاہروں کے دوران طاقت کا بے جا استعمال کرتے ہوئے ’انسانیت کے خلاف جرائم‘ کا ارتکاب کیا تھا۔
اقوام متحدہ کے تفتیش کاروں کے مطابق گذشتہ سال موسم گرما میں مظاہروں کے دوران 1400 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ سابق وزیرِ اعظم پر الزام ہے کہ وہ سینکڑوں مظاہرین کی ہلاکتوں کی ’ماسٹر مائنڈ‘ ہیں۔ شیخ حسینہ واجد اور ان کی جماعت عوامی لیگ ان الزامات کی تردید کرتے ہیں۔
رواں سال بی بی سی آئی نے سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کے فون کی ایک ایسی آڈیو کی تصدیق کی جس سے پتا چلتا ہے کہ گذشتہ سال بنگلہ دیش میں طلبہ کی سربراہی میں حکومت مخالف مظاہرین کے خلاف سخت کریک ڈاون کرنے کا حکم انھوں نے ہی دیا تھا۔
اس آڈیو میں، جو مارچ میں آن لائن لیک ہوئی، حسینہ واجد کو یہ کہتے سنا جا سکتا ہے کہ وہ سکیورٹی فورسز کو اجازت دیتی ہیں کہ وہ مظاہرین کے خلاف ‘مہلک ہتھیار استعمال کریں اور جہاں بھی انھیں دیکھیں، گولی مار دیں۔’
اس ریکارڈنگ میں حسینہ واجد کو ایک سینیئر حکومتی اہلکار سے بات چیت کرتے سنا جا سکتا ہے جو اب تک سامنے آنے والا سب سے اہم ثبوت ہے کہ انھوں نے حکومت مخالف مظاہرین پر گولی چلانے کا حکم دیا تھا۔
بی بی سی کو دیے ایک انٹرویو میں شیخ حسینہ کا کہنا تھا کہ ان پر عائد کردہ الزام درست نہیں۔ ان کا الزام ہے کہ ان کے خلاف ‘کینگرو کورٹ’ کو سیاسی مخالفین کنٹرول کر رہے ہیں اور ان کی غیر موجودگی میں عدالتی کارروائی کا ڈرامہ رچایا جا رہا ہے۔
شیخ حسینہ کا دعویٰ ہے کہ اس ٹرائل میں ان کے خلاف ‘پہلے سے طے شدہ’ فیصلہ سنایا جائے گا۔
حال ہی میں بنگلہ دیش کے چیف ایڈوائزر محمد یونس نے ایک میڈیا انٹرویو میں کہا تھا کہ انڈیا حسینہ واجد کی ‘حمایت’ کر رہا ہے۔ تاہم انڈیا کا موقف ہے کہ وہ آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کی حمایت کرتا ہے اور مقبول مینڈیٹ کے بعد جو بھی حکومت سامنے آئے گی اس کے ساتھ کام کرنے کے لیے تیار ہے۔
انڈیا سیکریٹری خارجہ وکرم مسری نے حسینہ سے متعلق معاملات کو ‘عدالتی اور قانونی’ مسائل کے طور پر بیان کیا ہے جس کے لیے دونوں پڑوسیوں کے درمیان ‘مشاورت’ ضروری ہے۔
شیخ حسینہ کیسے طاقتور رہنما بنیں؟
شیخ حسینہ نے تقریباً دو دہائیوں تک بنگلہ دیش پر حکومت کی اور وہ ملک میں سب سے طویل دورانیے کے لیے وزیراعظم رہنے والی سیاسی رہنما ہیں۔
شیخ حسینہ کو اکثر بنگلہ دیش کی معیشت کو ترقی دینے کا کریڈٹ دیا جاتا ہے لیکن حالیہ برسوں میں ان پر آمرانہ طرز حکمرانی اختیار کرنے کے الزامات لگتے رہے ہیں۔
شیخ حسینہ سنہ 1947 میں مشرقی بنگال میں پیدا ہوئی تھیں اور سیاست ان کے خون میں رچی بسی ہوئی تھی۔
وہ قوم پرست رہنما شیخ مجیب الرحمان کی صاحبزادی ہیں، جنھیں بنگلہ دیش کا ’بنگلہ بندھو‘ یعنی ’بابائے قوم‘ قرار دیا جاتا ہے۔ ان کی قیادت میں ہی بنگلہ دیش پاکستان سے علیحدہ ہوا تھا اور وہ 1971 میں ملک کے پہلے صدر بنے تھے۔
اس وقت سے ہی شیخ حسینہ نے خود کو ڈھاکہ یونیورسٹی میں ایک سٹوڈنٹ رہنما کے طور پر منوا لیا تھا۔
سنہ 1975 میں فوجی بغاوت کے نتیجے میں شیخ مجیب الرحمان اور ان کے خاندان کے متعدد اراکین کو قتل کر دیا گیا تھا۔ اس حملے میں صرف شیخ حسینہ اور ان کی چھوٹی بہن ہی بچ پائے تھے کیونکہ وہ اس وقت ملک میں نہیں تھیں۔
انھوں نے اس دوران انڈیا میں جلاوطنی کاٹی اور 1981 میں واپس بنگلہ دیش لوٹیں اور اپنے والد کی جماعت عوامی لیگ کی سربراہ مقرر ہو گئیں۔
انھوں نے جنرل حسین محمد ارشاد کی فوجی حکومت کے دوران دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر جمہوریت کی حمایت میں احتجاجی مظاہرے کیے۔
اس تحریک نے شیخ حسینہ کو مقبولیت کی بلندی پر پہنچا دیا اور وہ ایک قومی رہنما بن کر اُبھریں۔
وہ 1996 میں پہلی مرتبہ ملک کی وزیراعظم بنیں۔ اس دوران انھوں نے انڈیا کے ساتھ پانی کی شیئرنگ کی ڈیل طے کی اور ملک کے جنوب مشرقی علاقوں میں لڑنے والے عسکریت پسندوں کے ساتھ امن معاہدے پر دستخط کیے۔
لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان کی حکومت پر نہ صرف کرپشن کے الزامات لگتے رہے بلکہ وہ انڈیا سے زیادہ قربت کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بھی بنتی رہیں۔
سنہ 2001 میں وہ اپنی سابق اتحادی جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کی رہنما بیگم خالدہ ضیا سے الیکشن میں شکست کھا گئیں اور انھیں وزیرِ اعظم کا منصب چھوڑنا پڑا۔
بنگلہ دیش کی سیاست پر یہ دونوں خواتین تقریباً پچھلی تین دہائیوں سے چھائی رہیں اور انھیں ملک میں ’جنگجو بیگمات‘ کے نام سے پُکارا جانے لگا۔
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ ان دو رہنماؤں کی لڑائی کے سبب نہ صرف ملک میں بم دھماکے ہوئے، لوگ لاپتہ ہوئے اور لوگوں کا ماورائے عدالت قتل ہونا ملک میں معمول بن گیا۔
سنہ 2009 میں ایک عبوری حکومت نے ملک میں انتخابات کروائے اور شیخ حسینہ ایک بار پھر ملک کی وزیراعظم منتخب ہو گئیں۔
اپنے سیاسی سفر کے دوران بطور اپوزیشن رہنما شیخ حسینہ متعدد مرتبہ گرفتار ہوئیں اور ان پر حملے بھی ہوئے۔ سنہ 2004 میں ایک ایسے ہی حملے کے سبب ان کی قوتِ گویائی متاثر ہوئی تھی۔
کئی مرتبہ انھیں ملک بدر کرنے کی کوشش بھی کی گئی اور مبینہ کرپشن کے سبب ان پر عدالتی مقدمات بھی قائم کیے گئے۔
سیاسی کریئر میں انھوں نے کیا حاصل کیا؟
بنگلہ دیش کا شمار دنیا کے سب سے زیادہ غریب ممالک میں ہوتا تھا لیکن سنہ 2009 کے بعد شیخ حسینہ کی قیادت میں ملک کی معیشت میں بہتری آتی ہوئی نظر آئی۔
اب اس کا شمار خطے میں سب سے زیادہ تیزی سے آگے بڑھتی ہوئی معاشی طاقتوں میں ہوتا ہے، جس کی ترقی کی رفتار انڈیا سے بھی تیز ہے۔
ورلڈ بینک کے مطابق گذشتہ ایک دہائی میں تقریباً ڈھائی کروڑ لوگ غربت کی لکیر سے باہر آئے ہیں۔
ملک میں سب سے زیادہ ترقی کپڑوں یعنی گارمنٹس کے شعبے میں نظر آئی اور بنگلہ دیش میں بنائے گئے کپڑے کو یورپ، شمالی امریکہ اور ایشیا تک رسائی ملی۔
ملک کی اپنی دولت، قرضوں اور غیر ملکی اداروں سے معاونت کا استعمال کرتے ہوئے شیخ حسینہ نے بڑے ترقیاتی منصوبے شروع کیے، جن میں دو ارب 90 کروڑ ڈالر کی لاگت سے بننے والا ’پدما برج‘ بھی شامل ہے۔
ایک متنازع شخصیت
ملک میں پُرتشدد مظاہرے شاید شیخ حسینہ کے سیاسی کیریئر کا سب سے بڑا چیلنج تھے اور اس سے قبل ملک میں ہونے والے انتخابات بھی تنازعات کا شکار ہوئے تھے۔
ان انتخابات کے نتیجے میں شیخ حسینہ کی جماعت لگاتار چوتھی مرتبہ اقتدار میں آئی تھی۔
ان کے استعفے کے مطالبات کیے جاتے رہے لیکن شیخ حسینہ نے مزاحمت جاری رکھی۔ انھوں نے احتجاجی مظاہرین کو نہ صرف ’دہشتگرد‘ قرار دیا بلکہ اپیل کی کہ ’ان دہشتگردوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے۔‘
بنگلہ دیش میں سرکاری نوکری کو اچھی تنخواہ کی وجہ سے کافی اہمیت دی جاتی ہے تاہم تقریباً نصف نوکریاں، جن کی تعداد لاکھوں میں ہے، مخصوص گروہوں کے لیے مختص ہیں۔
سرکاری نوکریوں کا ایک تہائی حصہ ان افراد کے اہلخانہ کے لیے مخصوص ہے جنھیں بنگلہ دیش میں ’آزادی کی جنگ کا ہیرو‘ مانا جاتا ہے۔
تاہم ملک میں طلبہ اور دیگر احتجاجی مظاہرین کا کہنا تھا کہ یہ نظام متعصبانہ ہے اور سرکاری نوکری صرف میرٹ کی بنیاد پر ہی ملنی چاہیے۔
طلبہ کا یہ احتجاج ایک حکومت مخالف ملک گیر تحریک میں بدل گیا۔ دنیا میں کورونا وائرس کی وبا پھیلنے کے بعد بنگلہ دیش میں مہنگائی بڑھ گئی تھی، زرِ مبادلہ کے ذخائر کم ہو گئے تھے اور بیرونی قرضہ تقریباً دو گنا بڑھ گیا تھا۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور غربت کی اصل وجہ شیخ حسینہ کی حکومت کی بدانتظامی ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ماضی میں ملک کی معاشی کامیابیوں کا فائدہ صرف انھیں ہی ہوا ہے جو عوامی لیگ کا حصہ تھے۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس دوران ملک میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہوتی رہیں اور جمہوریت کا معیار گرتا گیا۔ وہ شیخ حسینہ پر آمرانہ طرزِ حکمرانی اختیار کرنے کا الزام لگاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ سابق بنگلہ دیشی وزیراعظم نے اپنے سیاسی مخالفین اور میڈیا پر پابندیاں عائد کیں۔
شیخ حسینہ اور ان کی حکومت ان الزامات کی تردید کرتے رہے ہیں۔


















































