شہیدوں کا لازوال کردار ، تیرہ نومبر ایک مقدس دن
تحریر: کامریڈ قاضی
دی بلوچستان پوسٹ
دنیا میں جتنی بھی قوموں نے آزادی لی ہے، ان کے پیچھے شہدا کا سب سے بڑا کردار رہا ہے۔ ان کی جدوجہد میں شہیدوں کی ایک طویل قطار شامل ہے۔ جن قوموں نے جان کی پرواہ کی ہے، قربانیاں دی ہیں، وہ آج سربلند ہیں، جبکہ جنہوں نے قربانیاں نہیں دیں وہ زوال کا شکار ہیں یا زوال ہو چکے ہیں۔ اسی طرح بلوچستان میں شہیدوں کا ایک نامور کردار ہے؛ ایک ایسا کردار جسے بیان کرنا مشکل ہے، جو لفظوں سے بیان نہیں ہو سکتا کیونکہ شہید اپنے کردار کو تاریخ میں قلم سے نہیں بلکہ خون سے لکھتے ہیں۔
تیرہ نومبر وہ دن ہے جب خان آف قلات میر محراب خان نے انگریز لشکر کے سامنے سرنڈر کرنے کے بجائے جام شہادت کو ترجیح دی۔ وہ یہ جانتے تھے کہ وہ انگریز فوج کو شکست نہیں دے سکتے، مگر اس نے غلامی کی زندگی اور غلام کے سامنے سر جھکانا عیب اور مادر وطن سے غداری سمجھ کر جنگ کی۔ پھر اسی کی قربانی نے پورے بلوچستان میں انگریز سامراج کے خلاف بغاوت کی علامت بنادی، اور یہ شہادت بلوچ نیشنلزم کی مضبوط بنیاد بنی۔ وہ تین سو شہید صرف تعداد نہ تھے بلکہ بلوچ فرزندوں کے حب الوطنی اور غلامی کی زنجیروں کو توڑنے کی علامت تھے۔
پھر 2010 میں بی ایس او آزاد نے تیرہ نومبر کو یوم شہدا کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا تاکہ شہیدوں کی قربانی کو ایک دن میں اجتماعی طور پر پورے بلوچستان میں منایا جائے، جو آج پورے بلوچستان میں منایا جاتا ہے۔ تیرہ نومبر کا دن ہمیں یہ یاد دلاتا ہے کہ مادر وطن اب بھی خون چاہتا ہے، ہمیں اور قربانیاں دینی ہوں گی۔ یہ دن یاد دلاتا ہے کہ شہیدوں کے راستے کو ہمیں آگے بڑھانا اور منزل تک پہنچانا ہماری ذمہ داری ہے، اور اس مقصد کیلئے عالمی برادری کی توجہ مبذول کرانی بھی ضروری ہے۔ یہ دن ہمیں پارٹیوں کی حد سے نکال کر یہ بتاتا ہے کہ شہیدوں کی قربانی کسی پارٹی یا تنظیم کیلئے نہیں بلکہ بلوچ قوم کیلئے تھی۔
بلوچستان میں ایسے شہیدوں کے نام بھی ہیں جو اپنی ماں کے اکلوتے اولاد تھے، جو اپنے غریب گھرانے کا واحد ذریعہ تھے، مگر انہوں نے اپنی ذاتی خواہشات، خاندان اور آرام دہ زندگی کو چھوڑ کر ہر شے سے بڑھ کر قومی جدوجہد کو ترجیح دی۔ بہت سے ہمارے شہدا جب جدوجہد میں شامل تھے تو ان کے خاندانوں کو ریاست نے اذیتیں دیں، انہیں دھمکیاں دیں، ہراساں کیا، لاپتہ کیا، مگر وہ مضبوط رہے اور اپنے آخری سانس تک آزادی کی جدوجہد کے نظریے پر قائم رہے۔ اگر ہم شہید جنرل اسلم بلوچ کی مثال لیں تو جنرل نے نئی عہد کے حضرت ابراہیم بن کر اپنے فرزند شہید فدائی ریحان کو اس کی خواہش کے مطابق فدائی حملے پر بھیج دیا اور اس کی والدہ یاسمین نے اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر کہا “بیٹا جاکر کامیابی سے اپنا مشن مکمل کرنا۔” یہ ایک تاریخی لمحہ تھا۔ اس کے بعد فدائی حملوں کی ایک نہ ختم ہونے والی سلسلہ شروع ہوا۔
شہیدوں کی قربانیوں سے آج ہمارا رسم و رواج زندہ ہے، شہیدوں کی قربانیوں سے آج بلوچ اور بلوچستان کا نام ہے۔ اگر آج فرانس سے لے کر چین تک، امریکہ سے لے کر برطانیہ تک بلوچستان کا ذکر ہوتا ہے تو وہ ان شہدا کی قربانی کی وجہ سے ہے۔ آج ہمارا دشمن شکست فاش سے دوچار ہے، وہ دنیا کے سامنے کچھ کہہ نہیں سکتا کہ بلوچ دہشت گرد ہیں، کیونکہ ہمارے شہدا اور سرمچاروں نے اپنی جنگ میں کبھی جذباتی کوئی قدم نہیں اٹھایا اور نہ ہی اپنے مفاد کیلئے کسی بے گناہ کو نقصان پہنچایا، چاہے وہ فدائی حملہ ہو یا کوئی آئی ڈی حملہ۔ ہمارے شہدا بے لوث اور نظریاتی تھے۔
ہمیں اپنے شہیدوں کے بارے اپنے بچوں کو بتانا چاہیے اور یہ درس دینا چاہیے کہ وہ بھی آنے والے وقت میں مادر وطن کیلئے قربانی دیں اور ان کے مقصد کو آگے لے جائیں۔













































