سب آلٹرن بلوچ عورت: نمائندگی، مزاحمت اور وجودی ایجنسی کا نظریاتی مطالعہ (پہلا حصہ) – محمد عامر حسینی

1

سب آلٹرن بلوچ عورت: نمائندگی، مزاحمت اور وجودی ایجنسی کا نظریاتی مطالعہ

پہلا حصہ

تحریر: محمد عامر حسینی

دی بلوچستان پوسٹ

ہمارا مین سٹریم ہو، سوشل میڈیا ہو، سیاسی جماعتیں ہوں، ریاستی ثقافتی اپریٹس ہو، غرض کہ ہماری سماجی، سیاسی، ادبی خیالات کی نمائندگی کرنے والے جتنے بھی پلیٹ فارم ہوں وہاں پر بلوچ یکجہتی کمیٹی کی شکل میں جو بلوچ عورت کی شناخت سامنے آئی ہے ، اسے لیکر بحث کی جتنی شکلیں ہیں وہ سب آلٹرن عورت کی وہ پیشکش کرتی ہیں جو وہ ہے ہی نہیں ۔

یہاں تک کہ بلوچ قوم پرست سیاست کے جتنے مرکزی بیانیے ہیں وہ بھی اس کی شناخت کو ناموس، غیرت اور حمیت کے گرد گھماتے ہیں ۔

پاکستان پیپلزپارٹی، مسلم لیگ نواز، پاکستان تحریک انصاف جیسی جماعتوں میں شامل شیری رحمان ، شازیہ مری ، سسی پلیجو ، سائرہ تارڈ ، عظمی بخاری، ڈاکٹر ثانیہ نشتر، ڈاکٹر شریں مزاری جیسی لبرل فیمنسٹ خواتین کے ہاں تو ان خواتین کی شناخت کو لیکر کچھ بھی سننے کو نہیں ملتا۔

بائیں بازو کا فیمنسٹ حلقہ دانشوراں بھی اس باب میں تخلیقی و فکری بانجھ پن کا شکار نظر آتا ہے۔ وہ اسپیوک کا نام تو لیتا ہے اور اس کے نظریات کی گردان تو کرتا ہے لیکن جب ان نظریات اور تصورات کے اطلاق کی بات آئے تو وہ گونگا ہو جاتا ہے۔ اور اس کے ہاں ہمیں بلوچ عورت کی بطور سب آلٹرن نمائندگی ، مزاحمت اور وجودی ایجنسی اور نمائندگی پر کچھ بھی تو سننے کو نہیں ملتا۔

اسپیوک نے اپنے خاندان کی ایک بنگالی عورت کی خودکشی کے واقعے کو لیکر سب آلٹریانٹی کے جس تصور کو آشکار کیا تھا وہ اپنے بھائی اور دیگر رشتے داروں کے ہاتھوں فائرنگ سے قتل ہونے والی عورت کے واقعے کو اس طرح سے دیکھ ہی نہیں پاتا جیسے اسپیوک نے دیکھا تھا۔ کیوں ؟ یہ سوال مجھے بہت تنگ کرتا رہا۔ آخر بائیں بازو کے اپنے تئیں مارکسسٹ ، سوشلسٹ فیمنسٹ دانشور مرد و خواتین اسپیوک کی طرح سے گرامچی ، ہیڈیگر، دریدا جیسے فلسفیوں اور سماجی سائنسدانوں کے نظریات کو سب آلٹرن بلوچ کی وجودی صورت حال کی جانچ کرنے میں ناکام کیوں رہے؟

یہ متن بلوچ عورت کی سیاسی، نظریاتی اور وجودی خود مختاری کو گیاتری اسپیوک کے تصورِ سب آلٹرن کی روشنی میں پرکھنے کی ایک کوشش ہے۔ اسپیوک کے مطابق سب آلٹرن وہ سماجی وجود ہے جس کی آواز طاقت کے غالب ڈھانچوں—ریاست، اشرافیہ، لبرل نسائیت، میڈیا اور علمی اداروں—میں غائب یا مسخ کر دی جاتی ہے۔ بلوچ تناظر میں یہی عمل ریاستی بیانیے، ترقیاتی منصوبوں، اور مین اسٹریم فیمینزم کے ذریعے مزید گہرا ہو جاتا ہے، جہاں بلوچ عورت کو یا تو ایک غیر سیاسی “قبائلی خاتون” کے طور پر دکھایا جاتا ہے، یا ایک ترقیاتی “beneficiary” میں تبدیل کر دیا جاتا ہے۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی سے وابستہ خواتین، جیسے ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ، سمی دین محمد بلوچ ، بیبو بلوچ ، ڈاکٹر صبیحہ بلوچ ، سعدیہ بلوچ ، گلزادی بلوچ ، ڈاکٹر شلی بلوچ وغیرہ اسی مسلط شدہ شناخت کے خلاف اپنی ازخود تشکیل کردہ سیاسی subjectivity کو منواتی ہیں۔

وہ نہ صرف ریاست کے طاقت ور بیانیے کو چیلنج کرتی ہیں بلکہ اشرافیائی اور این جی اوائزڈ فیمینزم کے اس دعوے کو بھی رد کرتی ہیں جو سب آلٹرن کے لیے “آواز” فراہم کرنے کا دعویٰ کرتا ہے۔

ان خواتین کا احتجاج، دھرنا، زبان کا انتخاب، اور اپنے جسم کی سیاسی موجودگی—سب اس بات کی علامت ہیں کہ بلوچ عورت اپنا بیانیہ خود تخلیق کرنے کی اہل ہے اور اپنی
subaltern
حالت کو محض ایک “سماجی مسئلہ” نہیں بلکہ ایک سیاسی و وجودی سوال کے طور پر پیش کرتی ہے۔

یہ متن اس لیے اہم ہے کہ یہ سب آلٹرنٹی کو محض
Ontic
سطح—یعنی سماجی اعداد و شمار، غربت یا پسماندگی—کے طور پر نہیں دیکھتا، بلکہ Ontological
سطح پر ایک ایسی ایجنسی کے طور پر سمجھتا ہے جو اپنی
subalternity
کو بحران
(crisis)
میں بدل کر نئے معنی، نئی مزاحمت اور نئی سیاسی تاریخ تخلیق کرتی ہے۔

ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اسی وجودی ایجنسی کی مجسم مثال ہیں—ایک ایسا وجود جو جبر، غم، ریاستی تشدد، اور خاموشی کو سیاسی الزام، زبان اور مزاحمت میں تبدیل کرتا ہے۔

بالآخر، یہ پوری بحث ہمیں اس بنیادی سوال تک لے جاتی ہے کہ
کیا بلوچ عورت اب محض “موضوعِ تحقیق” رہتی ہے یا وہ خود علم کی خالق، بیانیے کی تشکیل کنندہ اور سیاسی وجود کے طور پر ابھر رہی ہے؟

یہ متن اس سوال کا جواب بلوچ خواتین کی عملی اور نظریاتی مزاحمت میں تلاش کرتا ہے، جو سب آلٹرنٹی کو بولتی، دکھائی دیتی، اور فعال سیاسی ہستی میں بدل دیتی ہے۔

گیاتری اسپیوک کے تصورِ سب آلٹرن کی روشنی میں، بلوچ یک جہتی کمیٹی سے وابستہ خواتین کی جانب سے ریاستی طور پر مسلط کردہ شناخت کے انکار اور اشرافیائی / مین اسٹریم نسائیت کے بیانیے کو مسترد کرنے کو کیسے سمجھا جا سکتا ہے؟
اسپیوک کے ہاں سب آلٹرن کا مسئلہ نمائندگی، زبان اور طاقت

اسپیوک کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ “سب آلٹرن بول نہیں سکتے”
محض اس معنی میں نہیں کہ وہ جسمانی طور پر خاموش ہیں، بلکہ اس معنی میں کہ طاقت کے غالب ڈھانچے ان کی آواز کو
بدل دیتے ہیں
ترجمہ کر کے بے ضرر بنا دیتے ہیں
یا مکمل طور پر غائب کر دیتے ہیں۔

یعنی سب آلٹرن کی
“representation”
ہمیشہ کسی اور کے ذریعے ہوتی ہے
ریاست، این جی او، پارٹی، یا اشرافیائی دانشور / نسائی گروہ۔ اس نمائندگی کے عمل میں سب آلٹرن
object
بن جاتا/جاتی ہے،
subject
نہیں رہتا۔

بلوچ یک جہتی کمیٹی کی خواتین کا پہلا عمل: ریاستی شناخت کا انکار

ریاست بلوچ عورت کے لیے ایک تیار شدہ شناخت بناتی ہے، مثلاً

“قبائلی مگر ترقی کی محتاج عورت”

“ریاست کی ترقیاتی اسکیموں کی beneficiary”

“غیر سیاسی، امن پسند، ترقی کے خواب دیکھنے والی بلوچ عورت”

جب بلوچ یک جہتی کمیٹی سے وابستہ خواتین — جیسے سعدیہ بلوچ وغیرہ — اس شناخت کو رد کرتی ہیں، تو وہ دراصل اسپیوک کے کہے ہوئے
epistemic violence
کے خلاف بغاوت کرتی ہیں۔
ریاستی شناخت کا انکار، دو سطحوں پر معنی رکھتا ہے:

سیاسی سطح پر
وہ یہ ماننے سے انکار کرتی ہیں کہ ان کا بنیادی مسئلہ “غربت، ناخواندگی یا قبائلی پس ماندگی” ہے؛ وہ زور دیتی ہیں کہ اصل تضاد ریاستی جبر، جبری گمشدگی، فوجی کنٹرول، اور استعماری طرزِ حکمرانی ہے۔

معرفتی
(epistemological)
سطح پر
وہ یہ بھی کہتی ہیں کہ “ہمارے بارے میں سچ کون بولے گا؟”
وہ اس حق پر دعویٰ کرتی ہیں کہ بلوچ عورت کے تجربے کی تعبیر و تشریح خود بلوچ عورت کرے، نہ کہ ریاستی دانش، میڈیا یا این جی او فریم۔

یہی وہ مقام ہے جہاں اسپیوک کا
“Can the Subaltern Speak?”
بلوچ تناظر میں یوں بنتا ہے

“کیا بلوچ سب آلٹرن عورت خود بول سکتی ہے، یا ہمیشہ اس کے لیے اسلام آباد، لاہور، کراچی کے فیمینسٹ اور ریاستی ادارے ہی بولیں گے؟”

بی وائی سی کی خواتین کا احتجاج، پریس کانفرنسیں، سڑک پر دھرنے — سب اسی سوال کا عملی جواب ہیں۔

اشرافیائی / مین اسٹریم نسائیت کے انکار فیمینزم بطور طاقت کا آلہ

پاکستانی شہری، لبرل یا این جی اوائزڈ نسائیت عموماً درج ذیل زبان استعمال کرتی ہے

“بلوچ عورت بھی ہماری طرح
patriarchy
کا شکار ہے”

“ہم اسے
empowerment
دیں گے”

“ہم اسے آواز دیں گے”

یہاں بلوچ عورت خود مفعول (جس پر کچھ کیا جا رہا ہے) ہے، فاعل وہ فیمینسٹ ہیں جو

زیادہ تعلیم یافتہ شہری
زبان، میڈیا اور فنڈنگ پر قابض
اور ریاستی / عالمی ڈھانچوں کے قریب ہیں۔

جب بی وائی سی کی خواتین اس لبرل / اشرافیائی فیمینزم کو مسترد کرتی ہیں تو وہ اسپیوک کے اس نکتے کو مجسم کرتی ہیں کہ

Representing the subaltern for them is also a form of domination.

یعنی
“ہمارے لیے تمہارا بولنا بھی جبر کی ایک شکل ہے، جب تم ہمیں اپنی زبان، اپنے فریم اور اپنے ایجنڈے میں ضم کر دیتی ہو۔”

یہاں مسترد کرنا محض نظری اختلاف نہیں، بلکہ

اپنی
epistemology
پر حق کا اعلان ہے
(ہم خود جاننے / بیان کرنے والی ہیں)

اپنی
political subjectivity
پر حق ہے (ہم خود سیاسی فاعل ہیں، کسی کی
“beneficiary”
نہیں)

اور اپنی تاریخ و مزاحمت کی تعبیر پر حق ہے (بلوچ مزاحمت کی لغت ہم لکھیں گی، نہ کہ مین اسٹریم فیمینزم۔)

اسپیوک کے تصورِ سب آلٹرن کی روشنی میں بی وائی سی کی خواتین کا عمل

سب آلٹرن کو
“bolne wali subject”
میں تبدیل کرتا ہے،

ریاستی اور اشرافیائی فیمینسٹ دونوں قسم کے
“proxy speech”
کو رد کرتا ہے۔

اور بلوچ عورت کی سیاسی خود مختاری (autonomous political subject)
کو زندہ، مجسم اور مرئی
(visible)
بناتا ہے۔

یوں یہ خواتین سب آلٹرنٹی کو
passive
حالت سے نکال کر ایک فعال، مزاحم اور بولتی ہوئی
ontological
پوزیشن میں لے آتی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسرا سوال اب یہ ہے کہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور اس جیسی مزاحمتی بلوچ خواتین کا اپنی آواز اور اپنی سیاسی subjectivity
پر دعویٰ کرنا بلوچستان کی سب آلٹرن عورت کی
ontological agency
کو کس طرح مجسم کرتا ہے؟

یہ سوال ایک قدم آگے جاتا ہے
صرف “بولنے” کی بات نہیں، بلکہ “ہونے” (Being)
اور وجودی ایجنسی
(ontological agency)
کی بات کرتا ہے۔

Ontic vs Ontological

بلوچ عورت محض “کیسی ہے” نہیں، “کیا ہے” بھی

Ontic
سطح
جہاں ہم بلوچ عورت کو بطور “ڈیٹا” دیکھتے ہیں — غریب، دیہی، ناخواندہ، پس ماندہ وغیرہ۔

Ontological
سطح
جہاں ہم یہ پوچھتے ہیں کہ
وہ خود اپنے ہونے
(Being)
کو کیسے سمجھتی ہے؟
وہ کس طور سے اپنے وجود کو معنی دیتی ہے؟
وہ اپنی
subalternity
کو کیسے
crisis
میں ڈالتی ہے؟

ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کا وجود، اسی دوسری سطح پر اہم ہے۔ وہ صرف ایک
“activist”
نہیں، بلکہ ایک وجودی دعویٰ ہے کہ بلوچ عورت خود سیاسی
subject
ہے۔

اور اپنی
subaltern
حالت کو “مقدر” نہیں “سوال” بناتی ہے۔

ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کا وجود بطور سیاسی علامت
(Political Sign)

جب ایک بلوچ ڈاکٹر، عورت، اور مزاحمتی کارکن گمشدہ افراد کے لیے دھرنا دیتی ہے اور
طاقتور ریاستی اداروں سے براہِ راست سوال کرتی ہے اور
بار بار تشدد، گرفتاری، مقدمات کے باوجود احتجاج سے دستبردار نہیں ہوتی

تو وہ تین سطحوں پر
ontological agency
دکھاتی ہے

جسمانی سطح
(Corporeal level)
اس کا جسم، اس کی موجودگی، اس کا احتجاج
یہ سب “بلوچ عورت کے خاموش جسم” کے خلاف ایک مرئی جسمانی اعلان ہے

“میں صرف متاثرہ نہیں، فاعل ہوں۔”

لسانی / علامتی سطح
(Discursive level)
وہ جس زبان میں بات کرتی ہے
لاپتہ
“ریاستی جبر”، “استحصالی نظام”، “کالونیل طرز ریاست”
یہ زبان بلوچ عورت کے تجربے کو symbolic order
میں لے آتی ہے۔
یعنی جہاں پہلے بلوچ عورت کا تجربہ غیر زبان
(unspoken)
تھا، اب وہ بیانیہ بن جاتا ہے۔

زمانی / تاریخی سطح
(Temporal level)

وہ ماضی (ریاستی جبر کی تاریخ)، حال (جبری گمشدگیاں) اور مستقبل (آزادی / انصاف کے امکانات)
کو ایک ہی
political time
میں جوڑتی ہے۔
یہ وہی ہے جسے ہم سب آلٹرن تاریخ کی سطح
level
پر “اپنی تاریخ لکھنے کا حق” کہتے ہیں۔

Ontological Agency
کیا کرتی ہے؟

ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور اس جیسی عورتیں

اپنے “ہونے” کو
depoliticized
زندگی کے طور پر قبول نہیں کرتیں، بلکہ وہ اپنے وجود کو سیاسی سوال بنا دیتی ہیں۔
یعنی

“میرا زندہ ہونا، میرا ڈاکٹر ہونا، میرا بلوچ ہونا، اور میرا عورت ہونا
سب ایک ساتھ ریاستی جبر کے خلاف دلیل، سوال اور
indictment
ہیں۔”

یہ
ontological agency
اس لیے اہم ہے کہ
یہ
subaltern
کو مفعول
(object)
سے فاعل
(subject)
میں بدل دیتی ہے۔

اسے صرف
epistemo
کا حصہ نہیں رہنے دیتی
(ڈیٹا، کیس اسٹڈی، رپورٹ)

بلکہ اسے اپنی
epistemology
تخلیق کرنے والے وجود میں بدل دیتی ہے
وہ خود علم پیدا کرتی ہے، صرف “علم کا موضوع” نہیں رہتی۔

سب آلٹرنٹی کو بحران میں بدل دینا

اسپیوک کے نزدیک سب آلٹرنٹی کوئی جامد حالت نہیں، بلکہ ایک ایسی
condition
ہے جسےیا تو طاقت مستحکم کر دیتی ہے
اور متاثرہ کو ہمیشہ خاموش کرتی ہے
یا خود سب آلٹرن اسے
crisis
میں ڈال کر نئے معنی پیدا کرتا/کرتی ہے۔

ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ یہی کرتی ہیں

بلوچ عورت = صرف غریب دیہی، غیر تعلیم یافتہ، قبائلی؟
وہ اس تصور کو مسخ کرتی ہیں۔

بلوچ عورت = صرف
grieving sister/mother

وہ اس غم کو سیاسی الزام نامہ بنا دیتی ہیں۔

بلوچ عورت = development project کی
beneficiary
→ وہ خود
developmental
اور
liberal
فریم کو چیلنج کرتی ہیں۔

یہ سب مل کر سب آلٹرن بلوچ عورت کی ontological agency
کو مجسم کرتے ہیں، یعنی

“میں وہ نہیں جو تم مجھے کہتے ہو
میں وہ ہوں جو میں خود اپنے لیے کہتی ہوں — اور یہی میرا
Being
ہے۔”

ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور اس جیسی مزاحمتی بلوچ خواتین

سب آلٹرن کو
ontic
کی سطح
(غریب، پس ماندہ، victim) سے نکال کر ontological
سطح
(خودتعین، خودبیان، خودمعنی) پر لے آتی ہیں۔

جہاں وہ محض “موضوعِ تحقیق” نہیں بلکہ “تشکیلِ معنی کا مرکز” بن جاتی ہیں،

اور یوں بلوچستان کی سب آلٹرن عورت ایک بولتی، دیکھتی، سمجھتی اور فیصلہ کرتی سیاسی ہستی
(political being)
کے طور پر سامنے آتی ہے۔
پہلا سوال اس بات سے جڑا ہے کہ کون بولتا ہے، کس کی جگہ بولتا ہے، اور کس زبان میں
بولتا ہے ۔
یعنی نمائندگی اور
episteme
کا مسئلہ۔
دوسرا سوال اس بات سے جڑا ہے کہ سب آلٹرن عورت خود اپنے ہونے کو کیسے سیاسی بناتی ہے
یعنی وجود
agency
اور
ontological
سطح کا مسئلہ۔

بلوچ یک جہتی کمیٹی کی خواتین، اور ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی مثال میں، دونوں سطحیں ایک دوسرے میں یوں گتھم گتھا ہو جاتی ہیں کہ

بلوچ عورت اب
object of discourse
نہیں

بلکہ
producer of discourse
اور
locus of being
بن کر سامنے آتی ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔