شام پانچ بجے کے بعد شہر کی گلیاں سنسان ہو جاتی ہیں۔ کوئی باہر نکلنے کی جرات نہیں کرتا۔ اگر کوئی باہر نکلتا ہے تو پاکستانی فورسز کی طرف سے براہِ راست فائرنگ کی جاتی ہے۔ ہمارے نمائندے نے زہری شہر کا دورہ کیا، اور وہاں کے بچھڑے ہوئے گھروں، بند دکانوں اور سنسان گلیوں نے ایک خوفناک تصویر پیش کی۔
کم از کم پانچ سو خاندان اپنے گھروں کو چھوڑ کر نقل مکانی پر مجبور ہیں۔ کسان اپنی فصل، مویشیوں اور کھیت و کھلیان خالی چھوڑ کر شہر سے جا رہے ہیں۔ کپاس کی فصلیں ویسی کی ویسی پڑی ہیں، مالکان صرف خوف کے سائے کے ساتھ بھاگے ہیں۔
شہریوں کے مطابق، فورسز نے شہر میں چھ کیمپ قائم کر رکھے ہیں اور لوگوں کو اپنے گھروں کو خالی کرنے کا کہا گیا ہے۔ نورگامہ بازار میں ایک ہوٹل کو مارٹر گولے سے تباہ کر دیا گیا، کئی دکانیں جلائی گئیں، اور مالکان کو لاپتہ کر دیا گیا۔ ایک مقامی رہائشی نے بتایا “ہمارے گھر کی ہر چیز قبضے میں لے لی گئی، برتن، کمبل، حتیٰ کہ مویشی بھی ذبح کیے جا رہے ہیں۔ ہم صبح شام فائرنگ اور دھماکوں کے خوف میں جیتے ہیں۔”
شہریوں نے الزام عائد کیا کہ کرفیو، اسکولوں اور اسپتالوں کی بندش کے خلاف احتجاج کا اعلان کیا، مگر انہیں دھمکی دی گئی کہ احتجاج کرنے والے ایک ایک گولی کے ذریعے خاموش کر دیے جائیں گے۔
علاقہ مکینوں نے کہا کہ زہری شہر میں زندگی معمول کے مطابق نہیں چل رہی۔ نہ روزگار، نہ تعلیم، نہ صحت کی سہولیات دستیاب ہیں۔ ہر گلی میں خوف اور بے چینی کا راج ہے، اور لوگ اپنی برباد ہوتی زندگیوں کے ساتھ نقل مکانی پر مجبور ہیں۔
ہمارے نمائندے نے وہاں کے منظر اور شہریوں کی گفتگو سے یہ محسوس کیا کہ زہری شہر میں زندگی صرف ایک کرفیو تک محدود نہیں ہے؛ یہاں خوف، بے بسی اور عدم تحفظ کا ہر لمحہ محسوس کیا جا سکتا ہے۔ شہری نہ صرف اپنے گھروں اور مویشیوں سے محروم ہیں بلکہ اپنی معمول کی زندگی، روزگار، تعلیم اور صحت کی سہولیات سے بھی محروم ہو چکے ہیں۔ گلیاں سنسان ہیں، بازار خالی ہیں، اور ہر گھر میں خوف کا سایہ چھایا ہوا ہے۔


















































