ریاستی ناکامیاں – ٹی بی پی اداریہ
بلوچستان کے سیاسی افق پر مسلط کردہ برسراقتدار حکومت نے یہ فرض کرلیا ہے کہ یہاں تمام مسائل کا حل مواصلاتی سروسز کی بندش اور دفعہ 144 نافذ کرنے میں ہے۔ 6 نومبر سے بلوچستان حکومت نے پورے بلوچستان میں 30 روز کے لیے دفعہ 144 نافذ کردی ہے، جس کے دوران جلسے، جلوس، دھرنے اور پانچ سے زائد افراد کے اکٹھے ہونے پر پابندی عائد کی گئی ہے۔ ریلوے سروس پہلے ہی بند تھی، اور اب ٹرانسپورٹ اتھارٹی نے 12 سے 14 نومبر تک ٹرانسپورٹ سروس بھی معطل کردی ہے۔ حکومت نے سیکیورٹی خدشات کو بنیاد بنا کر بلوچستان کے تیس سے زائد اضلاع میں انٹرنیٹ سروسز بھی بند کردی ہیں۔
بلوچستان کے متنازع وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی ہر دوسرے دن یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ بلوچستان میں ریاستی رٹ بحال ہوچکی ہے اور اہم شاہراہیں محفوظ بن چکی ہیں۔ تاہم ان اقدامات سے کرفیو جیسی صورتحال پیدا کرکے حکومت اپنی ریاستی ناکامیوں کو چھپانے کی کوشش کر رہی ہے۔ عوام کی بنیادی ضروریاتِ زندگی پر پابندیاں عائد کرکے بلوچستان کے عوام کی روزمرہ زندگی، کاروبار اور تعلیم کو شدید متاثر کیا جا رہا ہے۔ حکومت کے ایسے اقدامات آزادی کے لیے سرگرم اداروں پر اثر انداز ہونے کے بجائے محض عوامی مشکلات میں اضافے کا سبب بن رہے ہیں۔
آزادی کے لیے برسرپیکار مسلح تنظیموں کی کارروائیاں بلوچستان بھر میں بڑھ چکی ہیں۔ بلوچستان کو سندھ، پنجاب اور ایران سے ملانے والی شاہراہوں پر ان تنظیموں کی ناکہ بندیاں مسلسل جاری ہیں۔ پاکستان فوج پر مہلک حملوں میں اضافہ ہوا ہے اور بلوچستان میں بین الاقوامی منصوبوں کی ناکامی کے آثار واضح ہیں۔ ان سنگین حالات میں حکومتِ بلوچستان اور حکومتی شخصیات کے دعوے زمینی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتے۔
آزادی پسندوں سے وابستہ اہم دنوں میں بلوچستان بھر میں فوجی سرگرمیوں میں اضافہ دیکھنے میں آتا ہے۔ تاہم حکومت کے ایسے فیصلے، جن سے عام لوگوں کی زندگی مفلوج ہوجاتی ہے، حالات میں بہتری کے لیے معاون ثابت نہیں ہوسکتے۔ اگست کے مہینے میں بھی انٹرنیٹ سروسز بند کرکے اور دفعہ 144 نافذ کرکے یہی طرزِ عمل اپنایا گیا تھا، جس سے آزادی پسندوں کی کارروائیوں پر کوئی نمایاں اثر نہیں پڑا۔ بلوچ قومی مزاحمت کی شدت بڑھ رہی ہے اور ایسے مصنوعی اقدامات اس جنگ کی تپش کو کم کرنے میں کبھی نتیجہ خیز نہیں ہوں گے۔













































