حسنین بلوچ؛ زندان کی شاموں میں انقلاب لانے والا – حانُل رشید

14

حسنین بلوچ؛ زندان کی شاموں میں انقلاب لانے والا

تحریر: حانُل رشید

دی بلوچستان پوسٹ

کوئٹہ کی سرد شام تھی، نومبر کی دھندلی روشنی شہر کے ہر گوشے میں پھیل رہی تھی۔ 30 نومبر 2018 کی بات ہے۔ دلِ شہر کے ایک گوشے میں ایک عام سا گھر معمول کے سکون میں ڈوبا ہوا تھا۔ کمرے میں نرم روشنی تھی، میز پر کتابیں رکھی تھیں اور ہر چیز اپنی جگہ پر تھی۔ اچانک دروازے زور سے کھلے، اور ایک لمحے میں اہلکاروں کی ایک ٹیم اندر داخل ہو گئی۔ پندرہ برس کا حسنین، حیرت اور خوف کے عالم میں جم گیا۔ اہلکاروں کی آمد، ان کے قدموں کی چاپ، کمرے میں بکھرتی ہوئی آوازیں اور ہر چیز کو دھکیلنے کا شور اس لمحے کی شدت کو کئی گنا بڑھا رہا تھا۔ اس کی ماں کی چیخیں اور رونے کی صدا ہر گوشے میں گونج رہی تھیں۔ خوف، ہڑبڑاہٹ اور اپنے پیاروں کے لیے بے بسی سب اس کی ماں کے چہرے پر واضح تھے۔

اہلکاروں نے گھر کے ہر کونے کو الٹ پلٹ کر رکھ دیا۔ فرش پر چیزیں بکھر گئیں، قالینوں پر بوٹوں کے نشان، ہر قدم، ہر دھکیل اور ہر چیز کی حرکت خوف کو مزید بڑھا رہی تھی۔ چھوٹے سے حسنین کے دل کی دھڑکنیں بے قابو ہو گئی تھیں۔ ہر آواز، ہر منظر اس کے وجود میں ہلچل پیدا کر رہا تھا۔ اس لمحے ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے وقت رک گیا ہو اور ہر چیز، ہر حرکت، ہر کمرہ خوف کے سایوں میں دب گیا ہو۔

چند لمحوں میں گھر کا ماحول بدل کر رہ گیا۔ خاموشی اور خالی پن نے ہر کمرے کو گھیر لیا، کیونکہ اہلکار حسنین، اس کے بڑے بھائی اور والد کو اپنے ساتھ لے گئے تھے۔ ان کے جانے کے بعد گھر خالی، سنسان اور خوف سے بھرا ہوا تھا، اور اس کی ماں کی سسکیاں باقی رہ گئی تھیں۔

چند دنوں بعد حسنین کے والد کو رہا کر دیا گیا، اور چند مہینوں کے بعد اس کے بڑے بھائی، چیئرمین جیئند بلوچ، کو بھی آزادی ملی۔ لیکن حسنین اب بھی کسی نامعلوم مقام پر تھا۔ یہ مہینے اس کی ماں کو بالکل بدل کر رکھ گئے تھے۔ وہ خوبصورت عورت، جو کبھی اپنی مسکراہٹ اور وقار سے روشنی بکھیرتی تھی، چند ہی مہینوں میں دھیرے دھیرے بوڑھی ہوتی گئی۔ آنکھوں میں تھکن، چہرے پر بے قراری اور خاموش درد نمایاں تھا۔

شہر بھر میں افواہیں پھیل رہی تھیں: کیوں اس بچے کو اٹھایا گیا؟ وہ کس معاملے میں ملوث تھا؟ جھوٹی خبریں، لوگوں کی بے حسی، باتوں کی ہلچل سب کچھ شور ہی شور تھا۔ میں نے اپنی زندگی میں بہت سی گمشدگیاں دیکھی ہیں، مگر حسنین کی گمشدگی نے کچھ اور محسوس کرایا۔ وہ تو صرف ایک میٹرک کا طالب علم تھا، ایک معصوم اور خاموش سا بچہ۔ اس کے ساتھ کیا ہوا؟ یہ گمشدگیاں معمول کی بات ہو سکتی ہیں، مگر یہ روحوں پر ایک گہرا نشاں چھوڑ جاتی ہیں۔ خاندان کی زندگی بدل جاتی ہے، بہن بھائیوں کی دنیا یکسر تبدیل ہو جاتی ہے، ہر دن خوف، انتظار اور بے یقینی سے بھرا ہوتا ہے۔

یہ واحد واقعہ نہیں تھا۔ بلوچستان کے گوشے گوشے میں ہزاروں گمشدگیاں تاریخ کے سناٹے میں گونج رہی ہیں۔ فلسفے کی نظر سے دیکھا جائے تو یہ “موجودگی کا نفی ہونا” (Negation of Existence) کی انتہائی سنجیدہ شکل ہے، جہاں ایک فرد کی جسمانی عدم موجودگی اس کے انسانی وقار اور معاشرتی بقا پر اثر ڈالتی ہے۔ یورپ کی تاریخ میں بھی ایسی مثالیں موجود ہیں: جنوبی امریکہ کی فوجی آمریت، نازی جرمنی کی سیاسی نظربندی، یا اسپین میں فرانکو کی فوجی کارروائیاں، جہاں لوگوں کو طاقت کے ذریعے غائب کر دیا جاتا اور معاشرہ اس کے خوف میں جکڑا رہتا تھا۔ ان تاریخی مظاہر میں بھی انسانی روح کی جدوجہد اور مزاحمت کی کہانیاں پوشیدہ ہیں، مگر ہر گمشدگی کا اثر خاندان، برادری اور معاشرتی شعور پر ایک مستقل نشاں چھوڑ جاتا ہے۔

بلوچستان میں بھی یہی حقیقت نظر آتی ہے۔ ہر اٹھایا گیا بچہ، ہر غائب ہونے والا فرد، صرف خاندان کی زندگی نہیں بدلتا بلکہ اس کے ساتھ ایک مکمل معاشرتی خلا پیدا ہو جاتا ہے۔ خوف، شک اور افواہوں کی گونج میں ایک نسل کی معصومیت دب جاتی ہے، اور ہر خاندان کی کہانی میں وہ فلسفہ چھپا ہوتا ہے جو انسانی وقار، آزادی اور اخلاقی جدوجہد کے بنیادی اصولوں سے جڑا ہے۔

13 نومبر حسنین کی سالگرہ کا دن تھا۔ اب وہ 23 برس کا ہو چکا ہے۔ شاید اب وہ خود بھی برسوں کا حساب بھول چکا ہو، کیونکہ اسے اب جیل منتقل کر دیا گیا ہے—ایسی جگہ جہاں دن کی روشنی اور رات کا اندھیرا ایک ہی رنگ اختیار کر لیتے ہیں۔ جہاں تنہائی (solitary confinement) انسان کو اندر سے چیرنے لگتی ہے۔ ماہرینِ نفسیات کہتے ہیں کہ مسلسل قید اور تنہائی انسان کے اعصاب کو مضمحل کر دیتی ہے اور رفتہ رفتہ وہ خود سے باتیں کرنے لگتا ہے۔ لیکن حسنین کے بارے میں جو چیز سب سے نمایاں ہے، وہ اس کی بہادری ہے۔ میں اس کے گزرے سات برس نہیں یاد کروں گی، نہ وہ اذیتیں جو اس نے سہیں، نہ وہ وقت جب وہ اپنے گھر اور اپنے خاندان سے دور رہا۔ مجھے بس ایک چیز یاد رہ گئی ہے: وہ بہادر اور ناقابلِ شکست ہے۔

2018 سے سات سال گزر چکے ہیں۔ میں ریاضی میں کمزور ہوں، مگر اتنا واضح جانتی ہوں کہ سات دن بھی انسان کو بدل سکتے ہیں، یہ تو سات سال ہیں۔ شاید اب وہ پندرہ سالہ لڑکا نہیں رہا، اب وہ ایک پُروقار اور پختہ مرد بن چکا ہو۔ شاید اس کی کمر تھک چکی ہو، مگر اس نے شکست قبول نہیں کی۔ کہا جاتا ہے کہ اذیت اور تنہائی انسان کو جسمانی اور ذہنی طور پر توڑ دیتی ہیں، اعصاب کو مفلوج کر دیتی ہیں، مگر وہ اب بھی زندہ ہے۔ وہ اب بھی کتابیں مانگتا ہے۔ جی ہاں، واقعی کتابیں۔ وہ پڑھنا چاہتا ہے۔ یہ ضد، یہ خواہش اس کے زندہ ہونے کی علامت ہے۔

اعصابیات (Neuroscience) کے ماہرین کے مطابق ایسی اذیتیں اعصابی نظام کو بُری طرح متاثر کرتی ہیں، مگر حسنین اب بھی اپنے وجود کے ساتھ لڑ رہا ہے۔ اور جب میں اس کے بارے میں سوچتی ہوں، تو میرے ذہن میں صرف ایک سوال رہ جاتا ہے: آخر وہ اتنا بہادر کیوں ہے؟ اس کے پاس تو راستے ہیں۔ وہ چاہے تو جھک جائے، مان لے اور آزاد ہو جائے، مگر وہ جھک نہیں رہا۔ وہ چاہے تو ان کے کہنے پر سب کچھ کر لے اور شاید اگلے ہی دن آزاد ہو جائے، مگر وہ ایسا نہیں کر رہا۔ وہ جھک نہیں رہا۔ آخر کیوں؟ وہ اپنی دھرتی کو بیچ کر اپنے لیے آزادی کیوں نہیں خرید رہا؟
اگر کبھی مجھے اس سے دوبارہ ملنے کا موقع ملے تو میں صرف ایک سوال پوچھنا چاہوں گی:
تم ان تاریک کوٹھڑیوں میں جیتے کیسے رہے؟
تم نے ہار کیوں نہیں مانی؟


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔