جبری گمشدہ بلوچ خواتین – ٹی بی پی اداریہ

11

جبری گمشدہ بلوچ خواتین

ٹی بی پی اداریہ

بلوچستان میں ریاستی جبر کے واقعات دن بدن مزید سنگین ہوتے جا رہے ہیں۔ بلوچ رہنما ڈاکٹر ماہرنگ بلوچ ساتھیوں سمیت کئی مہینوں سے پابندِ سلاسل ہیں اور بلوچ طالبہ ماہ جبین بلوچ کی جبری گمشدگی کو چھ مہینے گزر چکے ہیں۔ حب چوکی شہر سے آواران کی رہائشی کم سن لڑکی نسرینہ بلوچ کو ان کے گھر سے ایک ہفتہ قبل جبری گمشدہ کیا گیا، اور ہائبرڈ حکومت مزاحمتی سیاست میں متحرک بلوچ خواتین کے نام فورتھ شیڈول میں شامل کر کے ان کی سرگرمیوں پر قدغن لگا رہی ہے۔

بلوچستان میں ریاستی جبر کے خلاف سب سے زیادہ متحرک قوت بلوچ خواتین ہیں۔ نوجوان سیاسی کارکنوں کے حراستی قتل اور ہزاروں کی تعداد میں جبری گمشدگیوں، نیز ریاستی پابندیوں کے باوجود بلوچستان میں عوامی مزاحمتی سیاست کو متحرک کرنے میں بلوچ خواتین نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ پاکستان کے مقتدر ادارے بلوچ خواتین کے اسی قومی اور سیاسی کردار کو توڑنے کے لئے نہ صرف انہیں پابندِ سلاسل کر رہے ہیں بلکہ ان کی جبری گمشدگیوں سے بھی گریز نہیں کر رہے۔

بلوچ خواتین کی جدوجہد بلوچ قوم کو سیاسی طور پر منظم کر رہی ہے اور ریاستی جبر کو دنیا کے سامنے آشکار بھی کر رہی ہے۔ یورپی یونین کے سفیر ریمونڈاس کاروبلس کا پاکستان کے لئے جی ایس پی پلس اسکیم میں جبری گمشدگیوں کو ترجیحات میں شامل کرنے کا اعلان، اور اس حوالے سے یورپی یونین کا پاکستان سے بارہا تشویش کا اظہار، اس امر کو واضح کرتا ہے کہ دنیا پاکستان میں جبری گمشدگیوں کے سنگین مسئلے سے آگاہ ہے، اور یہ آگاہی بلوچ خواتین کی طویل اور مسلسل جدوجہد کی بدولت ممکن ہوئی ہے۔

پاکستان میں قانون کی بالادستی کے بجائے ریاستی مقتدرہ کی حکمرانی قائم ہے، جو طاقت کے زور پر محکوم طبقات و اقوام پر اپنے فیصلے مسلط کر رہی ہے۔ پاکستان کا ہائبرڈ نظامِ حکومت بلوچ خواتین کی جدوجہد سے خائف ہے اور بلوچ مزاحمتی سیاست کا راستہ روکنے کے لئے خواتین کی جبری گمشدگی کو ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔