جامعہ کراچی میں شعبۂ بلوچی کی اشد ضرورت – تیمور بلوچ

8

جامعہ کراچی میں شعبۂ بلوچی کی اشد ضرورت

تحریر: تیمور بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

ہر قوم کی تاریخ، زبان، ادب اور ثقافت تعلیمی اداروں میں پڑھائی جاتی ہے۔ جس طرح چین، مصر، میسوپوٹیمیا اور وادیِ سندھ کی تہذیب کے بارے میں ہمیں درسگاہوں میں پڑھایا गया ہے، اسی طرح ملک کے تعلیمی اداروں میں بلوچی زبان، تاریخ اور ثقافتی ورثہ بھی پڑھایا جانا چاہیے۔ مگر افسوس کہ ایسا نہیں ہو رہا، اور اس کی واضح مثال جامعہ کراچی ہے۔

تعلیمی ادارے اس لیے قائم کیے جاتے ہیں کہ لوگ تاریخ سے سیکھ کر اپنی حال اور مستقبل کی زندگی بہتر بنا سکیں اور اپنے معاشرے میں مؤثر کردار ادا کر سکیں۔

جامعہ کراچی پاکستان کا ایک اہم تعلیمی ادارہ ہے جہاں ملک کے مختلف صوبوں سے طلبہ خصوصاً بلوچستان کے طلبہ اپنی تعلیمی سفر کے لیے آتے ہیں۔ یہ جامعہ 1951 میں قائم ہوا اور یہاں شعبۂ سندھی سمیت ترپن شعبہ جات موجود ہیں جن میں سائنس، سوشل سائنسز، انجینئرنگ اور میڈیکل کے شعبے شامل ہیں۔

جامعہ کراچی میں طلبہ کے کئی مسائل زیرِ بحث رہتے ہیں، جیسے ہاسٹل کے مسائل، سمسٹر فیسوں میں اضافہ، ٹرانسپورٹیشن کا غیر فعال ہونا اوراساتذہ کو تنخواہیں نہ ملنا وغیرہ۔

لیکن اس تحریر میں زیرِ بحث سوال ان سب مسائل سے یکسر مختلف ہے، کیونکہ یہ سوال بلوچ طلبہ کا ہے، جو اپنی زبان، ثقافت، ادب اور تاریخ سے متعلق ہے۔

بلوچ طلبہ کا کہنا ہے کہ جامعہ میں سندھی، بنگالی، فارسی اور اردو کے شعبے موجود ہیں، مگر بلوچی شعبہ کیوں نہیں ہے؟ شعبہ کسی قوم کی علامت ہوتا ہے جو اس کی زبان، ثقافت اور تاریخ سے جڑا होता ہے۔ جس طرح سندھیوں کے لیے سندھی، فارسی کے لیے فارسی اور بنگالیوں کے لیے بنگالی زبان کا شعبہ موجود ہے، اسی طرح بلوچوں کے لیے بھی بلوچی ہونا چاہیے۔

قارئین! شعبۂ بلوچی آج نہیں بلکہ گزشتہ دو دہائیوں سے جامعہ کراچی میں موجود نہیں ہے۔ اور اگر ہم بلوچ قوم کی بات کریں تو حقیقت یہ ہے کہ بلوچ طلبہ دہائیوں سے اسی جامعہ میں پڑھتے آ رہے ہیں، مگر ان کی زبان، ادب اور تاریخ نہ تو انہیں پڑھائی جاتی ہے اور نہ ہی دیگر طلبہ کو۔ یہ بلوچ طلبہ کے ساتھ ایک واضح ناانصافی اور ناقابلِ قبول رویہ ہے، جس کی ذمہ دار سندھ حکومت اور جامعہ کے معزز اساتذہ ہیں جو سب کچھ جاننے کے باوجود خاموش ہیں۔

درحقیقت، سچ جاننے کے بعد بھی خاموش رہنا باشعور اور اعزازی میڈل یافتہ اساتذہ کے لیے بھی ایک سنجیدہ سوال ہے۔ اگر ملک کی جامعات میں بلوچی پڑھائی جاتی تو آج دیگر صوبوں کے لوگ بلوچ قوم کو “بلوچی” اور براہوی زبان کو “بُروی” نہ کہتے۔

لوگ ایسا اس لیے کہتے ہیں کیونکہ انہیں بلوچی زبان، ادب، تاریخ اور بلوچستان کی جغرافیائی حدود کا علم نہیں۔ وہ یہ بھی نہیں جانتے کہ بلوچستان میں کتنی زبانیں بولی جاتی ہیں، کیونکہ ان کی معلومات محدود ہیں۔ علم تب ہی حاصل ہوتا ہے جب انسان خود سیکھنے کی کوشش کرے، مگر میں نے دیکھا ہے کہ دیگر قوموں کے لوگ بلوچوں اور بلوچستان کے بارے میں نہ تو خود جاننے کی کوشش کرتے ہیں اور نہ ہی سمجھنے کی۔

بلوچستان یونیورسٹی کے شعبۂ تاریخ کے ممتاز پروفیسر ڈاکٹر فاروق بلوچ اپنی کتاب بلوچ اور ان کا وطن، بلوچستان اور برطانوی مورخین میں لکھتے ہیں کہ کراچی اور سندھ میں آباد بلوچ آج نہیں بلکہ قدیم زمانے سے اس سرزمین پر رہتے آئے ہیں۔

اگر حقیقت کو سامنے رکھا جائے تو کراچی اور سندھ کے نجی تعلیمی اداروں میں ایک قدیم قوم کی قدیم زبانیں—بلوچی اور براہوی—نہیں پڑھائی جاتی ہیں۔ مقامی بلوچوں کو صرف سندھی پڑھائی جاتی ہے۔ حالانکہ ہونا یہ چاہیے کہ جو بلوچ ہیں انہیں بلوچی، جو سندھی ہیں انہیں سندھی، اور دیگر قوموں کو ان کی اپنی زبان میں تعلیم دی جائے تاکہ ہر قوم اپنی زبان، ادب اور تاریخ سے بخوبی آگاہ ہو سکے۔

لیکن نجی تعلیمی اداروں میں صرف سندھی پر ترجیح دی جا رہی ہے، جس کے نتیجے میں مقامی بلوچ اپنی زبان چھوڑ کر سندھی زبان اختیار کرتے جا رہے ہیں اور لاشعوری طور پر اپنی شناخت کو صوبہ سندھ سے جوڑ رہے ہیں، حتیٰ کہ خود کو سندھی بھی کہنے لگتے ہیں، حالانکہ وہ بلوچ ہیں۔

آج جامعہ میں شعبۂ بلوچی موجود نہیں تو اس کی ایک ذمہ داری ہم بلوچ طلبہ، اساتذہ، اور سیاسی و سماجی رہنماؤں پر بھی عائد ہوتی ہے جو اپنی ڈگریوں اور ذاتی مصروفیات میں الجھ کر اپنی قومی ذمہ داری سے غافل رہے۔ اگر تعلیمی سفر کے دوران کسی اسٹوڈنٹ نے اس موضوع پر قدم اٹھایا ہوتا تو آج یہ صورتحال نہ ہوتی۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ 2022 میں بلوچ طلبہ تنظیموں اور پروفیسر رمضان بامری کی کوششوں سے جامعہ کراچی میں بلوچی بطور مائنر اور سرٹیفکٹ کورس پڑھائی جا رہی ہے۔

آخر میں، میں سندھ کے حکمرانوں خصوصاً وزیرِ اعلیٰ سید مراد علی شاہ، جامعہ کراچی کے وائس چانسلر محترم خالد عراقی، اور جامعہ کے تمام اساتذہ سے گزارش کرتا ہوں کہ بلوچ طلبہ کے لیے جامعہ میں شعبۂ بلوچی قائم کیا جائے، تاکہ نہ صرف بلوچ بلکہ دیگر قوموں کے طلبہ بھی بلوچ تاریخ، زبان اور ثقافت سے آگاہی حاصل کر سکیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔