تنظیمی رہنماؤں کا مقدمہ: ریاست اختلافِ رائے کو دبانے کے لیے قانون کا استعمال کر رہی ہے، عدلیہ محض مہرِ تصدیق بن چکی ہے۔ بی وائی سی

12

بلوچ یکجہتی کمیٹی کے مرکزی بیان میں کہا گیا ہے کہ رہنماؤں کے خلاف جاری مقدمے میں ایک بار پھر واضح ہوگیا ہے کہ ریاست نہ صرف اختلافِ رائے کو دبانے کے لیے قانون کا ہتھیار استعمال کر رہی ہے بلکہ عدلیہ کو بھی محض مہرِ تصدیق (Rubber Stamp) میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔

انہوں نے کہاکہ گزشتہ روز جیل میں ہونے والی سماعت کے دوران ایک بار پھر کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ مکمل چالان عدالت میں جمع کرانے میں ناکام رہا۔ کیس کو جان بوجھ کر تاخیری حربوں کے ذریعے طول دیا جا رہا ہے۔ ابتدا ہی سے CTD نے بارہا چالان جمع کرانے سے گریز کیا ہے، جبکہ عدالت ان غیر قانونی تاخیری حربوں کی حمایت کرتی دکھائی دیتی ہے۔ حیران کن طور پر، عدالت نامکمل چالان کی بنیاد پر فردِ جرم عائد کرنے کی جلدی میں ہے، حالانکہ قانونی طور پر کارروائی اس وقت تک آگے نہیں بڑھائی جا سکتی جب تک تمام چالان مکمل طور پر جمع نہ ہوں۔

بیان کے مطابق ابتدائی مراحل میں ہی CTD نے BYC کے رہنماؤں کے خلاف جھوٹے مقدمات (FIRs) کا ایک سلسلہ تیار کیا۔ جسمانی ریمانڈ کی سماعتوں کے دوران جج نے ہدایت دی تھی کہ تمام مقدمات ایک ساتھ پیش کیے جائیں، مگر اس کے بعد CTD نے 25 سے زائد جعلی مقدمات تیار کیے۔ اب جاری سماعتوں میں CTD ایسے نئے مقدمات کے چالان پیش کر رہا ہے جو پہلے کبھی پیش نہیں کیے گئے تھے۔ یہ صورتحال نہ صرف ریاستی اداروں کی جانب سے قانونی نظام کے ہتھیار بن جانے کا ثبوت ہے بلکہ عدلیہ کی ساکھ کو بھی بری طرح متاثر کر رہی ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ اسی نوعیت کے چار مقدمات میں خضدار انسدادِ دہشتگردی عدالت نے BYC رہنماؤں کو ضمانت دے دی ہے، مگر کوئٹہ کی انسدادِ دہشتگردی عدالت میں کارروائیاں تاخیر کا شکار ہیں۔ یہ طرزِ عمل واضح طور پر ظاہر کرتا ہے کہ اس مقدمے میں عدلیہ عملی طور پر مفلوج ہوچکی ہے اور بالواسطہ طور پر ریاستی دباؤ میں کام کر رہی ہے۔

مزید کہا ہے کہ گزشتہ روز کی سماعت کے دوران ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے جج سے پوچھا کہ کیا ملک میں آزادیٔ اظہارِ رائے موجود ہے؟ جج نے جواب دیا: “ہاں، یہ ہر شہری کا آئینی حق ہے۔” لیکن زمینی حقیقت اس کے برعکس ہے — کیونکہ BYC رہنماؤں کے خلاف تمام مقدمات ان کی تقاریر اور عوامی اظہار کی بنیاد پر درج کیے گئے ہیں۔ وہی جج جو آئین میں آزادیٔ اظہار کو تسلیم کرتا ہے، عملاً خفیہ اداروں کے احکامات پر عمل کرتے ہوئے اس حق کو پامال کر رہا ہے۔

آخر میں کہا کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں، وکلاء برادری، اور سول سوسائٹی سے اپیل کرتی ہے کہ وہ قانون کے غلط استعمال اور بلوچ انسانی حقوق کے کارکنان کے خلاف ریاستی جبر کا فوری نوٹس لیں، اور BYC کی قیادت کی رہائی کے لیے مؤثر کردار ادا کریں۔