بے زیب منگچر بابا
تحریر: حانی بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
میری سرزمین — جہاں میرے بابا کی یادیں بسی ہوئی ہیں۔ جہاں ان کی ہر جدوجہد کی کہانی شروع ہوتی ہے۔ وہ گل زمین، جہاں ان کے لہو سے گواڑخ کی خوبصورتی نکھرتی ہے۔
وہ سرزمین، جہاں انقلاب کی صدائیں گونجتی ہیں۔ وہ سرزمین، جہاں کوہِ ماران رقص کرتا ہے۔ وہ گل زمین، جہاں میرے بابا کی یادوں کا بسیرا ہے۔
شہیدوں کا دن… ان کی یادیں… ہر شہید کو سلام پیش کرنا، ہر شہید کو خراجِ تحسین دینا، اور ہر اس سپوت کو سرخ سلام پیش کرنا، جو گل زمین کے لیے قربان ہوا۔
تیرہ نومبر صرف تاریخ کا ایک ورق نہیں، یہ ایک عہد ہے۔ یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ قومیں ہمیشہ اپنے شہیدوں کے لہو سے زندہ رہتی ہیں۔
ان جانوں کا نذرانہ، جو وطن کے لیے دیا گیا، کوئی جذبہ نہیں بلکہ ایک پیغام ہے:
حق کے راستے پر چلنے والے کبھی مٹائے نہیں جا سکتے۔
فلسفۂ قربانی یہ سکھاتا ہے کہ جب قربانی کے بعد آزادی ملتی ہے تو محسوس ہوتا ہے کہ آزادی کتنی عظیم نعمت ہے۔ زندہ قومیں اسی قربانی کے صفحات پر اپنا نام لکھتی ہیں۔
میرے نزدیک میرے بابا ایک فرد نہیں، ایک فلسفہ ہیں— ایسا فلسفہ جس کے آگے ہر طاقتور ریاست بے بس ہے۔ ایسا فلسفہ جس کے سامنے ایٹمی طاقت بھی بے اثر ہو جاتی ہے۔
میرے بابا کا فلسفہ چلتن کی طرح اونچا، شاشان کی طرح سخت، ماران کی طرح حوصلہ مند، اور سمندر کی طرح گہرا ہے۔
بابا… کبھی کبھی لفظ خاموش ہو جاتے ہیں، اور دل اپنے اندر ایک ایسا طوفان سمیٹ لیتا ہے جو پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دے۔ آج میرے دل میں وہی طوفان شدت پکڑ چکا ہے۔ اگر میں یہ کہوں…
بابا جان! وہ لمحے، وہ یادیں — جو میں نے آپ کے ساتھ گزاریں، اس وقت میں نادان تھی۔ آپ کے فلسفے کو سمجھتی نہیں تھی۔ آپ کی وہ محبت، جو آپ مجھے دیتے تھے… آپ جانتے تھے کہ یہ محبت شاید آگے جاری نہ رہے، کیونکہ آپ ہم سے زیادہ گل زمین سے محبت کرتے تھے۔
میں نادان تھی، ان باتوں کو محسوس نہیں کرتی تھی۔
میں آپ کے فلسفے سے انجان تھی۔ مجھے یاد ہے، جب میں دس سال کی تھی تو ایک نومبر آیا۔ میرے سامنے کہا جاتا تھا کہ آج شہیدوں کا دن ہے۔
میں پوچھتی تھی: یہ دن شہیدوں کا دن کیوں ہے؟ مجھے بتایا جاتا کہ آج ہم اپنی سرزمین کے عاشقوں کو سلام پیش کرتے ہیں، جنہوں نے اپنے آپ کو قربان کیا۔
پھر میں اپنی بہن کے ساتھ پریس کلب جاتی۔ وہاں لوگوں کا ہجوم ہوتا، ہر شہید کی تصویر بینر پر لگی ہوتی، اور ہر تصویر کے سامنے گلاب کے پھول نچھاور کیے جاتے۔
اسپیکر میں استاد میر احمد کے گیت گونجتے، جو ہر شہید کو ان کی بہادری پر سلام پیش کرتے تھے۔
مجھے اور میری بہن کو سامنے بلایا جاتا اور کہا جاتا کہ اپنے بابا کی تصویر پر پھول رکھو
اور انہیں خراجِ تحسین پیش کرو۔
وہ لمحے میرے لیے کسی اعزاز سے کم نہیں تھے، بابا۔ اب سمجھتی ہوں کہ گل زمین کے بیٹوں کو کتنی محبت سے سلام پیش کیا جاتا ہے، ان کی بہادری کو کیسے سراہا جاتا ہے، اور ان کے فلسفے کو کیسے اپنایا جاتا ہے۔
بابا… جب میں منگچر آتی ہوں تو ایک الگ ہی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ ہر پتھر خاموش لگتا ہے، ہر بہتا دریا کوئی پیغام دیتا ہے، ہر درخت اپنے پتوں کے ساتھ گیت گاتا ہے، اور پہاڑ اپنی وفاداری کا ثبوت پیش کرتے ہیں۔
یوں لگتا ہے کہ گل زمین کی ہر شے اپنے شہیدوں پر ناز کرتی ہے اور انہیں سلام پیش کرتی ہے۔
کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آپ مجھے پکار رہے ہیں، اور میں آپ کی پکار پر لبیک کہہ رہی ہوں۔
لیکن بابا… منگچر آپ کے بغیر ویران ہے۔ ہر جگہ دیکھتی ہوں تو ایک یاد جڑی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔
آپ کی وہ آخری رات… بارہ بجے کی وہ مسکراہٹ، فون پر آپ کی ہنسی… پھر اچانک نیٹ ورک کا بند ہونا… اور صبح خبر ملنا کہ آپ دشمن سے لڑتے ہوئے شہید ہو گئے… اس لمحے کو میں لفظوں میں بیان نہیں کر سکتی۔ زندگی جیسے رک گئی تھی۔
لیکن شہید بابا… آپ کی موجودگی ختم ہوئی ہے، مگر آپ کی سوچ، تربیت اور محبت آج بھی زندہ ہے۔
آپ صرف ایک یاد نہیں — آپ تو ایک مشعل ہیں، جو ہمیشہ مجھے، میری بہن اور میرے بھائیوں کو راستہ دکھاتی رہے گی۔
بابا… آپ کا نظریہ میرے سانسوں میں بسا ہے۔













































