بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے مرکزی ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ بی ایس و آزاد وہ قومی ادارہ ہے جس نے بلوچ قومی تحریک کو نہ صرف نظریاتی بنیادوں پر مضبوط کیاہے بلکہ قومی آزادی کی جدوجہد میں ادارہ جاتی سوچ کو پروان چڑھا کر سیاسی شعور کو ایک نئی جہت عطا کی ہے۔
ترجمان نے کہا بی ایس او نے بلوچ قومی تحریک کے آزادی کے سفر کو علم و دانش کی بنیاد پر استوار کرکے بلوچ سماج کو ایک نئے فکری قالب میں ڈالا، جس سے بلوچ قوم نظریاتی حوالے سے جڑ کر اپنے قومی تشکیل کی جدوجہد میں مہوِ سفر ہے، بلوچ سماج میں آزادی، امن، اقدار و اخلاقیات کا درس دیتے ہوئے انقلابی عمل سے گزار کر شعوریافتہ نسل پیدا کیا ہے۔
ترجمان کے مطابق 26 نومبر 1967 میں بی ایس او کی بنیاد سے لے کر آج تک اس قومی ادارے نے مسلسل ارتقائی عمل سے گزر کر خود کو ایک منظم و مضبوط قومی ادارتی شکل دی ہے اس سفر میں مختلف مفاد پرست عناصر نے اپنے ذاتی و گروہی مفادات کی خاطر بی ایس او کو ہمیشہ اپنے زیر اثر رکھ کر پارلیمانی سیاست کی جانب دکھیلنے کی کوشش کی مگر 2000 کے بعد بلوچ نوجوانوں کے تاریخی فیصلہ نے نہ صرف ان مفاد پرستوں کی چنگل سے آزاد کرایا بلکہ اسے اس کی اصل اور حقیقی قومی مقصد سے ہم آہنگ کیا۔
انھوں نے کہا اسی تاریخی فیصلے نے بلوچ قومی تحریک کو سیاسی سمیت تمام محاذوں پر ایک توانائی بخشی اور بلوچ قومی آزادی کو نظریاتی و ادارتی بنیادوں پر مزید منظم کیا۔
ترجمان نے کہا ہے کہ بی ایس او نے قومی آزادی کے پیغام کو ہر گھر، ہر گاؤں اور ہر شہر تک پہنچا کر بلوچ قوم کو آزادی کے حوالے سے تعلیم یافتہ کرکے ان کو فکری طورپر بیدار کیا۔
بچوں سے لے کر نوجوانوں تک قومی درس دیتے ہوئے ان کو شعور یافتہ کیا جس کے نتیجے میں بلوچ معاشرہ دوبارہ قومی اقدار کے مطابق آزادی کی جدوجہد کے ساتھ جڑتا گیا، بی ایس او کا نعرہ رہا ہے “ قلم ہماری آواز، کتاب ہمارے رہنما اور بلوچستان کی آزادی ہماری منزل جو نہ صرف زبانی نعرہ ہے بلکہ ایک نظریاتی فلسفہ ہے جس کے بنیاد پر ادارہ بلوچ سماج میں جدوجہد کرتی آرہی ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے بی ایس او نے اس قومی جدوجہد میں بے دریغ مگر عظیم قربانیاں دی ہیں جن میں ادارے کے کارکنان سے لے کر مرکزی رہنما پاکستانی ریاست کے ہاتھوں شہید و جبری طور پر گمشدہ ہوئے ہیں، لمہ ء وتن بانک کریمہ، رضا جہانگیر، شفی جان، کمبر چاکر اور کامریڈ قیوم جیسے عظیم سپوتوں نے اس قومی ادارے کے دفاع میں اپنا لہو بہایا مگر اس کے عظیم نظریہ سے کبھی دھوکہ نہیں کیا۔
اسی طرح تنظیم کے مرکزی چئیرمین زاہد کُرد بلوچ اور مرکزی انفارمیشن سیکریٹری شبیر بلوچ جیسے رہنما پاکستانی عقوبت خانوں اب بھی جابر دشمن کے خلاف مزاحمت کے عظیم فلسفہ پر ڈٹے ہوئے ہیں اور اپنے نظریے کی پختگی سے اسے شکست سے دوچار کررہے ہیں۔
پارٹی ترجمان نے کہا بی ایس او نے اپنے 58 سال مکمل کرلیے ہیں یہ تاریخ قربانیوں اور عظیم کارناموں سے بھری ہوئی ہے اس قومی ادارے نے سخت سے سخت حالات کا سامنا کرتے ہوئے اپنےعظیم رہنماوں کی قربانی دیکر بھی ہمیشہ اپنے مقصد و فلسفہ پر ثابت قدمی سے جڑا رہاہے، جو ہمیں باور کراتی ہے کہ یہ عظیم قومی اور انقلابی ادارہ اپنے قومی وقار و آزادی کے دفاع سے کبھی دستبردار نہیں ہوگا۔
انہوں نے آخر میں کہا بلوچ نوجوانوں پر یہ قومی زمہ داری ہے وہ اس عظیم قومی ادارے کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اس کے فلسفہ کے ساتھ نظریاتی طورپر جڑے رہیں، کیونکہ ہمارا مقصد ایک پرامن، باوقار اور سماجی اقدار سے وابستہ معاشرے کا قیام ہے اور یہ تب ممکن ہے جب آزاد بلوچستان کا سورج بلوچ سرزمین پر طلوع ہوگا۔















































