امتحانات کے دوران پیتھالوجی ڈپارٹمنٹ کے انچارج کی جانب سے طالبہ کو ہراساں کرنے کے خلاف طلبہ کی جانب سے احتجاج کیا جا رہا ہے۔
بلوچستان کے سب سے بڑے میڈیکل کالج بولان میڈیکل کالج میں طالبہ کے ساتھ ہراسانی کے واقعے کے بعد طلبہ کی جانب سے آج یونیورسٹی کے احاطے میں دھرنا دیا گیا اور واقعے کے خلاف فوری کارروائی کا مطالبہ کیا گیا۔
میڈیکل کالج کے طلبہ کے مطابق حالیہ سپلیمنٹری امتحانات کے دوران لسبیلہ سے تعلق رکھنے والی طالبہ، مسماۃ “آئی” کو بی ایم سی پیتھالوجی ڈپارٹمنٹ کے انچارج اسحاق نے وائیوا کے دوران جنسی ہراسانی کا نشانہ بنایا۔
طلبہ کے مطابق پیتھالوجی ڈپارٹمنٹ کے ایچ او ڈی اسحاق نے وائیوا کے دوران طالبہ کو اکیلا پا کر غیر اخلاقی حرکات کی کوشش کی، تاہم چوکیدار کی بروقت مداخلت سے طالبہ وہاں سے محفوظ نکلنے میں کامیاب ہوگئی۔
ہراسانی کا نشانہ بننے والی طالبہ نے بعد ازاں واقعہ اپنے دیگر ساتھیوں اور طلبہ تنظیموں کو بتایا، جس کے بعد طلبہ نے واقعے کے خلاف شدید احتجاج کرتے ہوئے ملوث پروفیسر کے خلاف فوری کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔
طلبہ کے مطابق یونیورسٹی انتظامیہ اور پرنسپل نے متاثرہ طالبہ کو فون کرکے دھمکی دی ہے کہ وہ اپنا ہراسانی کا بیان واپس لے، بصورتِ دیگر اسے تعلیم جاری رکھنے میں مشکلات پیش آسکتی ہیں۔
واقعے کے خلاف آج بولان میڈیکل کالج کے طلبہ نے کالج میں ہونے والے ہراسانی کے اس واقعے سمیت دیگر ناانصافیوں کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ متاثرہ طالبہ پر انتظامیہ اور اعلیٰ حکام کی جانب سے اتنا دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ وہ اپنا کیس آگے بڑھانے سے ہچکچا رہی ہے، جو انتہائی افسوسناک اور ناقابلِ قبول ہے۔
احتجاج کرنے والے طلبہ نے کہا کہ یہ کوئی معمولی یا عام معاملہ نہیں، ایک پروفیسر کی جانب سے امتحانات کے دوران طالبہ کو جنسی ہراسانی کا نشانہ بنایا گیا، اور بعد ازاں پرنسپل سمیت جامعہ حکام متاثرہ طالبہ کے ساتھ کھڑے ہونے کے بجائے اُسے دھمکیاں دیں کہ وہ اپنا کیس واپس لے کر خاموشی اختیار کرے۔
ادھر طلبہ احتجاج کے بعد محکمہ صحت بلوچستان نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے بی ایم سی انتظامیہ کو فوری تحقیقات کا حکم جاری کیا، جس کے بعد طلبہ نے اپنا احتجاج تین دن کے لیے مؤخر کردیا ہے۔
طلبہ نے مزید کہا کہ اگر ان کے مطالبات پر فوری عمل درآمد نہ ہوا تو وہ شدید احتجاج پر مجبور ہوں گے۔
واضح رہے کہ بلوچستان کے تعلیمی اداروں میں طلبہ، خصوصاً خواتین طلبہ کے ساتھ ہراسانی کے متعدد واقعات سامنے آ چکے ہیں، 2019 میں جامعہ بلوچستان میں ہراسانی کا ایک بڑا اسکینڈل سامنے آیا تھا، جہاں طالبات کے واش رومز میں خفیہ کیمرے نصب کیے جانے کا انکشاف ہوا تھا۔
واقعے کے خلاف بلوچستان سمیت دیگر شہروں میں طلبہ نے بڑی تعداد میں احتجاجی مظاہرے اور دھرنے دیے تھے، جس کے بعد حکومت نے نوٹس لیتے ہوئے تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی تھی۔
تاہم حکومتی دعووں کے برعکس کئی سال گزرنے جانے کے باوجود جامعہ بلوچستان اسکینڈل کے مرکزی ملزم وائس چانسلر کے خلاف کوئی کاروائی عمل میں نہیں لائی جاسکی ہے، جسے پہلے جامعہ بلوچستان سے نکال کر پنجگور اور اب اوتھل یونیورسٹی میں تعینات کردیا گیا ہے۔
















































