بلوچ عورت، کہسار کی صورت – سلطانہ بلوچ

1

بلوچ عورت، کہسار کی صورت

تحریر: سلطانہ بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

عورت کسی بھی معاشرے کی بنیاد اور اس کی پہچان ہوتی ہے۔ قومیں تبھی ترقی کی منازل طے کرتی ہیں جب ان کی بیٹیاں اپنی سرزمین پر محفوظ اور بااختیار ہوں مگر بلوچ قوم کا المیہ یہ ہے کہ آج بلوچ سرزمین پر اس کی اپنی بیٹیاں بھی محفوظ نہیں ہیں۔

آج جب دنیا خواتین پر تشدد کے خاتمے کا عالمی دن منا رہی ہے، ہماری بلوچ مائیں، بہنیں اور بیٹیاں اپنے گھروں کی چادر اور چار دیواری میں بھی خوف کا شکار ہیں۔ ریاستی ظلم و جبر اور بربریت خطے کی ہر سانس کو زخمی کر رہی ہے اور بلوچ بیٹیوں کو ایک کے بعد ایک نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ریاست کے اختیاردار، جنہوں نے بلوچستان کے کونے کونے میں ظلم و جبر کا بازار گرم کر رکھا ہے، وہ قانون کا نام لیتے ہوئے قانون کی دھجیاں اڑا رہے ہیں اور لاقانونیت کو اپنا وطیرہ بنا چکے ہیں۔ ستم ظریفی یہ کہ قانون کے لبادے میں یہ قانون و انصاف سے بے بہرہ لوگ خود کو کسی کے سامنے جوابدہ نہیں سمجھتے۔ کسی کو بھی اٹھا کر زندانوں کی نذر کر دیتے ہیں اور سوشل میڈیا پر اپنے حامی اکاؤنٹس کے ذریعے اس جبری لاپتہ کیے گئے مرد، عورت یا بچے پر ایسے بے بنیاد الزامات لگا دیے جاتے ہیں اور ایسی من گھڑت کہانیاں اس سے منسوب کی جاتی ہیں کہ کل اگر وہ بے گناہ ثابت بھی ہو (اکثریت پر یہ الزامات ثابت نہیں ہوتے) تو بھی سماج میں دوبارہ نارمل زندگی گزارنے کے قابل نہیں رہتا۔

پہلے ہماری خواتین اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے عزم و ہمت کا دامن تھامے سڑکوں پر احتجاج کرنے نکلتی تھیں، مگر آج ایسا جبر و بربریت کا وحشت ناک ماحول پیدا کر دیا گیا ہے کہ آواز اٹھانا ہی جرم بن چکا ہے۔ گویا زبان کھولو گے تو اٹھا لیے جاؤ گے۔ لیکن جتنا ریاست کا ظلم بڑھتا ہے، بلوچ دھرتی کے بچے اتنی ہی زیادہ تعداد میں اور پہلے سے زیادہ مضبوط حوصلوں کے ساتھ مزاحمت کی شمع روشن کرتے ہیں۔

ریاست ظلم اس حد تک جا سکتی ہے کہ بلوچ قوم کی آنکھیں نوچ لے، وہ جبر کی اس انتہا تک پہنچ سکتی ہے کہ بلوچوں کی زبانیں کاٹ ڈالے، لیکن ریاست کو یہ ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ زبانیں کٹ بھی جائیں تو بھی اس دھرتی کی ہوا میں مزاحمت کی تپش باقی رہے گی۔

آنکھیں اندھی کر دو، تب بھی ظلم کے خلاف چٹانوں کی مانند حوصلے مضبوط ہوں گے اور ظلم و جبر کے خلاف حق کی آواز بلند ہوتی رہے گی اور اس بربریت کو اس سرزمین سے ہمیشہ کے لیے مٹانے کی جدوجہد جاری رہے گی۔

دنیا کی تاریخ کے اوراق الٹنے سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ زبان بندی سے حق کی آوازیں وقتی طور پر معدوم تو ہوجاتی ہیں لیکن ہمیشہ ظلم و زبان بندی کا سلسلہ جاری نہیں رہ پاتا۔ جبر کی بنیادوں پر کھڑے بربریت کے سارے میناروں کی قسمت میں ہمیشہ اوندھے منہ گرنا ہی لکھا ہوتا ہے۔ بلوچ تاریخ نے بلوچوں کو سکھایا ہے کہ ظلم کے آگے سر جھکانا ذلت ہے، جبر کی نشاندہی سے گریز اور زبان بندی جرم ہے، جب کہ اس کے سامنے دیوار بن کر مزاحمت کرنا ہی زندگی اور نسلوں کی بقا ہے۔ بلوچوں نے ہمیشہ جبر کے سامنے کھڑے ہو کر حق کی آواز بلند کرتے ہوئے اپنے وجود کا اعلان کیا ہے۔

جن بلوچ بیٹیوں کو ٹارچر سیلوں کی تاریکیوں میں قید رکھا گیا ہے، ان میں زرینہ مری ہے جسے بیس طویل برسوں سے اپنے پیاروں کی شکل تک دیکھنے نہیں دی گئی، نہ ان کے لواحقین کو یہ بتایا گیا ہے کہ وہ کہاں ہے۔ ریاست زرینہ مری کے وجود سے انکاری ہے۔ مگر انہی بیس برسوں میں بلوچ خواتین نے ظلم کے خلاف خاموشی کا بت پاش پاش کیا ہے۔ انہی برسوں میں ریاست کے تشدد نے ردِعمل میں کتنی ہی جانباز بلوچ بیٹیاں جنم دی ہیں۔ شہید بانک کریمہ بلوچ کے روشن کردار سے لے کر 22 نومبر 2025 کی وہ رات، جب کم عمر نسرینہ بلوچ کو بھی ریاست کے ظلم کی بھینٹ چڑھا دیا گیا، وہ بچی جس کے ہاتھوں میں کتابیں اور کاپیاں ہونی چاہئیں تھیں، اس کے نصیب میں ٹارچر سیل کی سیاہی لکھ دی گئی۔

ماہ جبین بلوچ، جو 29 مئی 2025 کو جبری لاپتہ ہوئیں، چھ ماہ ہونے کو ہیں مگر ان کا سراغ تک نہیں۔ ماہ رنگ بلوچ، بیبو بلوچ اور گل زادی بلوچ سات ماہ سے بلاجرم قیدِ تنہائی کی اذیتیں سہہ رہی ہیں۔ ان کے لبوں پر مسکراہٹ آج بھی زندہ ہے، اور یہی مسکراہٹ ظلم روا رکھنے والوں کے لیے سب سے بڑی شکست ہے۔

جبر و بربریت اور زندانوں کی سختیوں سے ہی مزاحمت کی آوازیں جنم لیتی ہیں۔ یہی وہ تاریکیاں ہیں جن سے ہمارے حوصلے اجالا بن کر ابھرتے ہیں۔ یہی وہ جبر ہے جس نے ہماری خاموشی کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا ہے۔

آج دنیا ہماری داستان نہیں لکھ رہی، ہم بلوچ قوم خود اپنے ہاتھوں سے اپنی تاریخ کے اس روشن باب کو رقم کر رہی ہے۔ ہم اپنی بیٹیوں کی جدوجہد کو اپنے خون کو سیاہی بنا کر لکھتے ہیں۔ آج بلوچ خواتین کے حوصلے چٹانوں سے بلند اور سمندروں سے گہرے ہو چکے ہیں۔ ریاست نے انہیں توڑنے کی کوئی کوشش ادھوری نہیں چھوڑی، مگر نہ ظلم انہیں جھکا سکا، نہ زندان انہیں خوف زدہ کر سکے، نہ جبری گمشدگی ان کی ہمت توڑ سکی۔

یہ بیٹیاں آج بھی مزاحمت کا علَم بلند کیے کھڑی ہیں، اپنی قوم، اپنے وطن اور اپنے وجود کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں۔ یہ جدوجہد نہ صرف بلوچوں کی بقا کی جدوجہد ہے بلکہ یہ انسانوں کو ظلمتوں سے نجات دلا کر اجالوں کے دامن میں لانے کی جدوجہد ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔