بلوچستان میں جاری نسل کشی کے خلاف خاموشی جرم ہے، قوم اٹھ کھڑی ہو۔ ڈاکٹر صبیحہ بلوچ

142

بلوچ یکجہتی کمیٹی کی مرکزی رہنما ڈاکٹر صبیحہ بلوچ نے ایک ویڈیو بیان میں کہا ہے کہ زہری میں ریاست کی جانب سے نافذ کردہ کرفیو کو پچیس دن سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے، علاقے میں لوگ بھوک اور بیماری کے باعث جانیں گنوا رہے ہیں، جبکہ ریاستی فضائی حملوں کے نتیجے میں متعدد خواتین اور بچے شہید ہو چکے ہیں۔

ڈاکٹر صبیحہ بلوچ نے کہا کہ ریاست نے جبری گمشدگیوں اور ٹارگٹ کلنگ کی پالیسیوں میں شدت پیدا کر دی ہے۔ آواران میں روزانہ کی بنیاد پر لوگوں کو فوجی کیمپوں میں بلایا جاتا ہے اور بعدازاں ان کی لاشیں پھینک دی جاتی ہیں، مکران میں ریاستی حمایت یافتہ ڈیتھ اسکواڈز کے ہاتھوں رواں مہینے پانچ افراد کو قتل کیا گیا ہے، ان تمام اقدامات کا مقصد بلوچ قوم کو دبانا اور خاموش کرانا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماؤں کو قید کیا جا رہا ہے، جبکہ تنظیمی اراکین کے نام فورتھ شیڈول میں شامل کیے جا رہے ہیں تاکہ ان کی آواز کو دبایا جا سکے۔

ڈاکٹر صبیحہ بلوچ نے بلوچ قوم سے اپیل کی کہ وہ اٹھ کھڑی ہو اور بلوچستان میں جاری نسل کشی کے خلاف آواز بلند کرے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر ہم خاموش رہے تو یہ نسل کشی مزید بڑھے گی۔

انہوں نے کہا کہ یہ وقت خاموشی کا نہیں بلکہ مزاحمت کا ہے، کیونکہ ظلم کے خلاف بولنا ہی حقیقی قومی ذمہ داری ہے۔