بلوچستان: مزید پانچ افراد جبری لاپتہ، نال میں احتجاجی دھرنا

23

بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کا سلسلہ بدستور جاری ہے، پاکستانی فورسز کے ہاتھوں مزید پانچ افراد کو لاپتہ کیے جانے کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں جبکہ جبری لاپتہ دو افراد بازیابی ہوگئے۔

ضلع خضدار کی تحصیل نال سے موصول اطلاعات کے مطابق گزشتہ دس روز کے دوران پاکستانی فورسز نے مختلف چھاپوں میں چار نوجوانوں کو حراست میں لے کر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا ہے۔

ذرائع کے مطابق حراست کے بعد جبری گمشدگی کا نشانہ بننے والے نوجوانوں میں بابل ولد خمیسا، فاروق ولد عید محمد، عبدالستار ولد جان محمد اور حزیفہ ولد مولوی عبدالغفار شامل ہیں۔

واقعے کے خلاف نال کے شہریوں نے دھرنا دے کر لاپتہ نوجوانوں کی بازیابی کا مطالبہ کیا اور علاقے میں جبری گمشدگیوں، گھروں پر چھاپوں اور چادر و چار دیواری کی پامالی کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔

ادھر کوئٹہ سے موصولہ اطلاعات کے مطابق پاکستانی فورسز نے پولیس اے ایس آئی رحمت اللہ کے جوان سال بیٹے اویس بلوچ کو بھی جبری طور پر لاپتہ کردیا ہے۔

مزید برآں رواں ماہ 17 اکتوبر کو کوئٹہ کے علاقے عیسیٰ نگری سے سی ٹی ڈی اور خفیہ اداروں کے ہاتھوں جبری طور پر لاپتہ کیے گئے نوجوان نزیر بلوچ اور وہاب بلوچ آج صبح بازیاب ہو کر اپنے گھروں کو واپس پہنچ گئے ہیں۔

واضح رہے کہ آج ہی کوئٹہ میں رات گئے پاکستانی فورسز اور سی ٹی ڈی نے ایک پلازہ پر چھاپہ مار کر آواران سے تعلق رکھنے والے طالب علم دلیپ جان ولد پیر محمد، کیچ کے رہائشی ساحر ولد عبدالغنی اور سلمان بلوچ کو حراست میں لے کر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا تھا۔

بلوچستان میں جبری گمشدگیوں میں ایک بار پھر شدت دیکھی جا رہی ہے جہاں رواں مہینے کے پہلے ہفتے کے دوران کوئٹہ کے مختلف علاقوں سے تین افراد جبری طور پر لاپتہ ہوئے، جبکہ نومبر کے چھ روز میں بلوچستان بھر سے مجموعی طور پر 15 افراد جبری لاپتہ، دو بازیاب اور ایک لاپتہ شخص کی لاش برآمد ہوئی ہے۔

بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے واقعات طویل عرصے سے ایک سنگین انسانی حقوق کے مسئلے کے طور پر سامنے آ رہے ہیں مختلف انسانی حقوق کی تنظیموں نے بارہا مطالبہ کیا ہے کہ گمشدہ افراد کے مسئلے کو شفاف اور مؤثر طریقے سے حل کیا جائے۔