بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی (بساک) کے رہنماؤں نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ بساک کا چوتھا مرکزی کونسل سیشن بیادِ بلوچ ادیب عطا شاد و آزات جمالدینی و بنامِ بلوچ خواتین تنظیم کے سابق چئیرمین شبیر بلوچ کے زیر صدارت بلوچستان کے شہر کیچ میں کامیابی سے منعقد کیا گیا۔ تین روزہ مرکزی کونسل سیشن دو روزہ بند کمرہ اجلاس اور ایک روزہ حلف برداری تقریب پر مشتمل تھا جو کامیابی سے اختتام پزیر ہوا جن میں اُزیر بلوچ تنظیم کے مرکزی چئیرمین اور پیرجان بلوچ سیکریٹری جنرل منتخب ہوئے۔
“مرکزی کونسل سیشن مختلف نشستوں پر مشتمل تھا ،جن میں مرکزی چئیرمین کا افتتاحی خطاب، آئین سازی، دو سالہ تنظیمی کارکردگی رپورٹ، تنقیدی نشست، تنظیمی امور، سیاسی صورتحال، آئندہ کا لائحہ عمل کے ایجنڈوں پر تفصیلی گفتگو و مباحثہ کے بعد الیکشن کمیشن کے ذریعہ منتخب نئے چیئرمین کا خطاب شامل تھا۔
“اجلاس کا دوسرہ ایجنڈہ آئین سازی تھا، جس میں آئینی کمیٹی نے آئین میں ترمیم کے نئے تجاویز کونسلران کے سامنے پیش کیے۔ آئین کے چیدہ چیدہ شقوں پر تفصیلی مباحثے کے بعد کونسلران کی اکثریتی رائے سے ضروری تبدیلیاں لائی گئیں۔”
“اجلاس کا تیسرا ایجنڈہ دو سالہ تنظیمی کارکردگی رپورٹ تھا، تنظیم کے سیکریٹری جنرل نے دو سالہ مکمل رپورٹ اجلا س میں پیش کی، جس میں تعلیمی سرگرمیاِں، طلباء کے تعلیمی مسائل پر مہمات، بلوچستان بھر میں لٹریری فیسٹیولوں کا انعقاد، بلوچستان کتاب کاروان کے کتب میلے، بلوچ لٹریسی کیمپئین کی تفصیلی رپورٹ سمیت دیگر تنظیمی سرگرمیوں پر تفصیلی جائزہ پیش کیا گیا۔”
“اجلاس کے چوتھے ایجنڈے میں تنقیدی نشست کے دوران تنظیم کی سابقہ کارکردگی پر تفصیلی گفتگو ہوئی،جہاں تمام کونسلران نے بھرپور حصہ لیتے ہوئے تنظیم کی کمزوریوں کی نشاندہی کی اور ان کو اصلاح کرنے کے لئے نئے پالیسیوں کو فروغ دینے پر زور دیا۔”
پریس کانفرنس میں کہا گیا کہ مرکزی کونسل سیشن کا دوسرا دن 30 اکتوبر کو پانچوئیں ایجنڈے تنظیمی امور سے باضابطہ طور پر آغاز ہوا، تنظیمی امور کے ایجنڈے میں کونسلران نے اپنے تیارکردہ ڈرافٹ اجلاس میں پیش کیے ،جن میں مستقبل کے دو سالوں کے لیے نئے پالیسی و فیصلے شامل تھے۔ اسی طرح سیاسی صورت حال پر کارکنان نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے عالمی و علاقائی صورتحال پر تفصیلی جائزہ لیا۔
“اجلاس کے آخری حصے آئندہ لائحہ عمل کے ایجنڈے پر اہم ٖتجاویز پر فیصلہ لینے کے بعد الیکشن کمیشن تشکیل دیا گیا۔ سابقہ چئیرمین شبیر بلوچ، مرکزی کمیٹی کے رکن عامر بلوچ اور جویریہ بلوچ الیکشن کمیشن کے رکن منتخب ہوئے، جنہوں نے الیکشن کا عمل کامیابی سے سرانجام دیا۔
“مرکزی کابینہ کے پانچ کے عہدوں کے لیے فارم جمع کرنے والے امیدواروں میں سے اُزیر بلوچ بلامقابلہ چئیرمین منتخب ہوئے جبکہ دیگر عہدوں پر وائس چئیرمین علی بلوچ، سیکریٹری جنرل پیر جان بلوچ، ڈپٹی سیکریٹری جنرل تنویر بلوچ اور انفارمیشن سیکریٹری فہد بلوچ منتخب ہوئے۔ مرکزی کمیٹی کے دس عہدوں کے لیے گیارہ کونسلروں نے اپنے فارم جمع کیے، جبکہ مرکزی کمیٹی کے لیے دس اراکین منتخب ہوئے جن میں سہیل بلوچ، بیبگر بلوچ، ہانی بلوچ، نگرہ بلوچ، جعفر بلوچ، عدنان بلوچ، ارشد بلوچ، علی بلوچ، رحمان بلوچ اور نادر بلوچ شامل ہیں۔
“مرکزی کونسل سیشن کا تیسرا روز حلف برداری تقریب پر مشتمل تھا، جو سرکٹ ہاؤس کیچ میں منعقد ہوا جہاں تنظیم کے سابقہ چئیرمین شبیر بلوچ نے نئے منتخب قیادت سے حلف لیا۔ حلف برداری تقریب میں مختلف سیگمنٹ شامل تھے جن میں تقاریر، کتاب رونمائی، ڈاکیومنٹری سمیت بلوچی موسیقی شامل تھی۔ حلف برداری تقریب میں نوجوانوں سمیت مختلف طبقہ ِ فکر کے لوگوں نے شرکت کی جنہوں نے بطور مہان تقریب میں حصہ لیا، جن میں سابق چئیرمین شبیر بلوچ، عصا ظفر، غنی پرواز، منظور بلوچ، شلی بلوچ، علی جان بلوچ، گلزار دوست سمیت دیگر نے شرکت کی ۔ تقریب میں بچوں کی میگزین “گام”، تنظیم کی آرگن ” نوشت” سمیت تنظیمی ساتھی جعفر بلوچ کی کتاب” بلوچستان نا مڈیک” کی کتاب رونمائی کی گئی۔ عطا شاد و آزات جمالدینی کی زندگی و کردار پر ڈاکومنٹری پیش کی گئی جبکہ آخر میں موسیقی پروگرام کا انعقاد کرکے تقریب اختتام پزیر ہوئی۔”
پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ازیر بلوچ نے کہا کہ میں نے بحیثیت مرکزی چئیرمین تنظیم کی قیادت سنبھالی ہے ،یہ میرے لیے باعثِ فخر ہونے کے ساتھ ایک بہت بڑی قومی ذمہ داری بھی ہے ،جہاں تنظیم کے اراکین نے ہم پر اعتماد کرتے ہوئے ہماری قیادت کو رہنمائی کا موقع دیا ہے۔ یہ ایک جانب تنظیم کے اندر جمہوری روایات کی پاسداری ہے جو ہمیشہ ہماری بنیادی ترجیحات میں شامل رہی ہے۔ سابقہ قیادت نے اپنی آئینی مدت مکمل کرنے کے بعد تنظیم کی قیادت ہمیں منتقل کی ہے، یہی وہ جمہوری تسلسل ہے جس نے بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کو بلوچ طلبا سیاست میں ایک مثالی و باوقار مقام دلایا ہے۔ آ ج اسی جمہوری و تنظیمی روایات کی وجہ سے تنظیم کو بلوچ طلبا سیاست میں وہ مقام حاصل ہے جہاں اسے نہ صرف بلوچ نوجوانوں بلکہ پوری قوم کا اعتماد حاصل ہے۔ اتنی کم عرصے میں اس قدر تنظیمی استحکام اور فکری مضبوطی حاصل کرنا کسی بھی طلبا تنظیم کے لیے ایک تاریخی کامیابی ہے۔ بساک کی اس رفتار سے تنظیمی و فکری حوالے سے ترقی کرکے ایک منظم قومی طلباء تنظیم کی شکل اختیار کرنا ان محنتی، مخلص اور شعور یافتہ کارکنان کی انتھک جدوجہد کاثمر ہے، جنہوں نے سخت سے سخت حالات کا ثابت قدمی سے مقابلہ کرکے تنظیم کے ساتھ جڑے رہے اور اپنی انتھک محنت و قربانی سے تنظیم کو بلوچستان بھر میں فعال کیا جو آج بلوچ طلباء کے لیے امید کی کرن بن چکی ہے۔
انہوں نے کہا کہ تنظیم نے اپنے سفر کے دوران بکھرے ہوئے بلوچ نوجوانوں کو یکجاہ کرکے ان کو نظریاتی کشمکش سے نکال کر ایک قومی سوچ دیا جو انفرادی سوچ سے بالاتر ان کو اجتماعیت کی طرف راغب کرتی ہے۔ نوجوانوں میں اجتماعی سوچ کو پروان چڑھا کر معاشرے کی اجتماعی مفادات کی خاطر جدوجہد تنظیم کی بنیادی مقاصد میں شامل رہی، اسی نسبت تنطیم نے بلوچستان بھر میں علم کا چراغ روشن رکھنے کے لیے بلوچ نوجوانوں کو تعلیم و کتابوں کی طرف راغب کیا، ان کو مختلف سماجی برائیوں سے بچھانے کے لیے تعلیمی سرگرمیاں منعقد کی گئی، اسکولوں میں کیرئیر کونسلنگ تقرب، شہروں میں لٹریری فیسٹیولوں کا انعقاد، سائنس کے شعبوں کو نوجوانوں میں پروان چڑھانے کی خاطر فیسٹیول و سیمناروں کا انعقاد یا پھر بلوچستان بھر میں بلوچستان کتاب کاروان کے بینر تلے کتب میلوں کا مہم شامل تھے ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ قوموں کی ترقی کا سفر تعلیم کی روشن راستے سے گزر کر ہی اپنے مقام تک پہنچتی ہے، اور بساک اسی فلسفہ پر یقین رکھتی ہے کہ معاشرے کی ترقی نوجوانوں کے ہاتھ میں ہے، اگر وہ تعلیم یافتہ ہوکر باعلم بنیں اور معاشرے کی ترقی و ترویج کی خاطر جدوجہد کریں تو ہمارا معاشرہ ان ترقی یافتہ و پرامن معاشروں میں شمار ہوگا جو آج سائنسی، ادبی، سیاسی، معاشی سمیت دیگر شعبوں میں ترقی کی راہ پر گامزن ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آج بلوچ نوجوان مختلف ہھتکنڈوں سے علمی و تخلیقی میدان میں پیچھے دکھیلے جاچکےہیں جس میں وہ ایک سنگین قومی بحران سے گزر رہے ہیں، ایک طرف ان کو خوف کے سائے تلے رکھا گیا ہے جہاں تعلیمی اداروں میں ان کو ہراسگی و پروفائلنگ کا سامنا ہے تو دوسری جانب بلوچستان بھر میں منشیات کلچرکو عام کرکے پوری ایک نسل کو تباہ کیا جارہاہے۔ نشہ جیسے ناسور مرض نے پورے معاشرے کو اپنے لپیٹ میں لیا ہوا ہے جہاں کئی نوجوان ان کا شکار ہوکر اپنی قومی ذمہ داریوں سے منحرف ہوکر ذہنی مریض بن چکے ہیں۔ بلوچ نوجوان ان تمام منفی ہھتکنڈوں کو سمجھ کر ان کا ڈٹ کر مقابلہ کریں اور کتابوں کو اپنا ہتھیار بنا کر علم و شعور کے سفر میں اپنی رفتار مزید تیز و منظم کریں۔ آج اس جدید دور میں جب قوم کو نوجوانوں کی ضرورت ہے تو ان کو نشہ و آرام طلبی کے دلدل سے خود کو نکال کر باشعور نوجوان کی طرح قومی تعلیم، نظم و ضبط اور لگن سے سرشار جہدِ مسلسل سے وابستہ ہوکر بلوچ معاشرے کو ایک روشن مستقبل مہیا کرنے میں اپنا قومی کردار ادا کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی ایک طلبا تنظیم کے حیثیت سے بلوچستان بھر میں فعال ادارہ ہے جو بلوچ نوجوانوں کو سائنسی و سیاسی بنیادوں پر ان کی فکری و علمی تربیت کررہا ہے۔ اس جدید دور میں جہاں دنیا کے دیگر ممالک کے نوجوان جدید سائنسی سہولیات سے لطف اندوز ہوکر ترقی کی راہ پر گامزن ہیں۔ ان کو اس جدید دور میں تمام شعبوں جیسے کے نیچرل سائنس، سوشل سائنس، اسپیس سائنس، انفارمیشن ٹکنالوجی، ادبیات، سیاسیات، معاشیات سمیت دیگر تعلیمی میدانوں میں برتری حاصل ہے ان کا بنیادی سبب جدید تعلیمی سہولیات سے آراستہ ہے جس سے وہ پڑھ لکھ کر اپنی تخلیقی صلاحیتوں سے نئے نئے ایجادات کرنے میں مصروف ہیں۔ ان کو بنیادی اسکولنگ نظام سے لے کر اعلیٰ تعلیمی اداروں میں نہ صرف رسائی حاصل ہے بلکہ ان کو تمام جدید تعلیمی سہولات میسر ہیں۔ دوسری جانب بلوچستان ہے جہاں طالبعلم بنیادی تعلیمی سہولیات سے محروم ہیں، اس جدید اے آئی کے دور میں بلوچستان کے طلباء اساتذہ ، تعلیمی عمارات، جامعات میں جدید لبارٹری، سائنس و ٹکنالوجی کے شعبوں میں جدید لیب، اسکالرشپس، سمیت دیگر بنیادی تعلیمی سہولیات سے کوسوں دور ہیں۔ ہم نے بطور طلبا تنظیم بلوچستان کے تعلیمی اداروں میں بنیادی سہولیات و جدید آلات کے لیے جدوجہد کرنے کے لئے پالیسیاں بنائی ہیں جن میں بلوچ لٹریسی کیمپئن کے توسط سے بلوچستان بھر میں کیرئیر کونلسنگ سیشن کا انعقاد، تعلیمی حوالے سے بلوچ عوام میں آگاہی مہم چلانے سمیت غیرفعال تعلیمی اداروں کو فعال کرنے، جامعات کو بحرانوں سے نکالنے کے لیے مہم، بلوچستان کے طلبا ء کو سائنسی بنیادوں پر جدید سائنسی آلات سے آگاہ کرنے و ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگرکرنا شامل ہونگے۔ طلباء کو سائنس کے شعبوں کی جانب راغب کرنے کے لیے سائنس اگزیبشن و فیسٹیولوں کا انعقاد کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ ہمارا مقصد ایک تعلیم یافتہ و شعور یافتہ معاشرہ قائم کرنا ہے اسی نسبت کتب بینی کے کلچر کو فروغ دینے کے لیے بلوچستان بھر میں بلوچستان کتاب کاروان کے بینر تلے کتب میلوں کا مہم چلائی جائے گی تاکہ بلوچ معاشرہ علمی میدان میں گامزن ہو کر اپنی مستقبل کو روشن کرسکے۔ معاشرے میں علمی بحث و مباحثہ کے ماحول کو پروان چڑھانے اور اپنے اساتذہ و دانشوروں کو اس سفر میں شامل کرنے کے لیے بلوچستان کے مختلف علاقوں میں لٹریری فیسٹیولوں کا انعقاد کیا جائے گا جہاں ادبی و سیاسی ثقافت کو پروان چڑھایا جاسکے۔ بلوچ قوم کی مادری زبانوں کو ترقی دینے اور بلوچ بچوں کو تعلیم کی جانب راغب کرنے کے لیے مادری زبانوں پر منظم انداز میں جدوجہد کیا جائے گا جس میں بچوں اور نوجوانوں کے لئے مختلف ادبی و سیاسی میگزین کی اشاعت شامل ہونگے۔
نومنتخب چیئرمین نے کہا کہ ہماری اس علمی سفر میں ہمیں قوم کا مکمل اعتماد حاصل ہے توہم یہ عزم کرتے ہیں کہ ہم بلوچستان بھر میں بلوچ نوجوانوں کو سیاسی، سائنسی و علمی شعور دے کر ایک مضبوط آواز بن کر ان کی رہنمائی کریں گے۔ ہم بلوچستان کے عوام خاص کر نوجوانوں سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھ کر اس علمی سفر میں ہمارا ساتھ دیں تاکہ ہم بلوچستان میں ایک باعلم با صلاحیت نسل پیدا کرنے اور بلوچ معاشرے کو ترقی دینے میں کامیاب ہوجائیں۔

















































