امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے آبائی شہر نیویارک کے میئر کے انتخاب کے دوران بار بار دھمکی دی تھی کہ اگر زہران ممدانی جیت گئے تو وہ اس شہر کے لیے وفاقی فنڈنگ روک دیں گے۔
چند روز قبل جب ممدانی انتخاب جیتنے کے بعد سٹیج پر آئے تو انھوں نے ٹرمپ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا ’میرے پاس آپ کے لیے صرف تین الفاظ ہیں۔۔۔ (ٹی وی کا) والیوم بڑھا لیجیے۔‘
مگر اب سے کچھ گھنٹے قبل دنیا بھر کی ٹی وی سکرینوں نے ایک مختلف منظر دیکھا۔ ٹرمپ نے نیو یارک کے نو منتخب میئر زہران ممدانی سے وائٹ ہاؤس میں ملاقات کی ہے۔ ایک ایسی ملاقات جسے سال کا سب سے بڑا سیاسی ٹاکرا سمجھا جا رہا تھا مگر یہ توقعات سے برعکس رہی۔ بعض مبصرین نے تو اسے ایک قسم کی تعریفی محفل سے تشبیہ دی۔
خود کو ’ڈیموکریٹک سوشلسٹ‘ کہنے والے ممدانی نے جیتنے کے بعد اپنی تقریر میں ٹرمپ کو ’فاشسٹ‘ یعنی آمرانہ خیالات کا حامل کہا تھا اور ملاقات سے قبل صدر کی ترجمان نے ان کے دورے کو ’کمیونسٹ کا وائٹ ہاؤس وزٹ‘ قرار دیا تھا۔
لیکن اوول آفس میں جب ٹرمپ اور ممدانی آمنے سامنے آئے تو دونوں کا لہجہ حیران کن طور پر شائستہ اور مصالحت آمیز تھا۔
بار بار دونوں رہنماؤں نے نیویارک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور رہائشیوں کے بحران کو حل کرنے میں اپنی مشترکہ دلچسپی پر زور دیا۔ وہ مسکرا رہے تھے حتیٰ کہ ٹرمپ اس وقت بھی خوشگوار موڈ میں دکھائی دیے جب صحافیوں نے ان سے ممدانی کی جانب سے ان پر کی گئی تنقید کے حوالے سے سوال کیے۔
صدر نے کہا ’ہم ان کی مدد کرنے والے ہیں‘ اور یہ بھی کہا کہ ’ہمارا بہت سی باتوں پر اتفاق ہے۔ اتنا تو میں نے سوچا بھی نہیں تھا۔‘
اس ملاقات کے ماحول نے سیاسی مبصرین کو حیران کرنے کے علاوہ یہ واضح پیغام دیا ہے کہ دونوں رہنما سمجھتے ہیں کہ مہنگائی اور ہاؤسنگ بحران سے نمٹنا اُن کی سیاسی کامیابی کے لیے ضروری ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ یکم جنوری کو ممدانی کے عہدہ سنبھالنے کے بعد بھی دونوں کے لہجے کی یہ نرمی برقرار رہتی ہے یا نہیں۔
ٹرمپ نے کہا ’میں ان کی حمایت کرتا رہوں گا۔‘
ٹرمپ نے ممدانی کی تعریف کی
صحافیوں سے بات شروع ہوتے ہی دونوں کا مصالحت آمیز لہجہ واضح تھا۔
ون آن ون ملاقات کے بعد میڈیا کے سامنے ممدانی صدر کے دائیں جانب کھڑے تھے اور ہاتھ باندھے ہوئے تھے جبکہ صدر ٹرمپ ریزولوٹ ڈیسک کے پیچھے بیٹھے تھے۔ دونوں کی باڈی لینگوئج پُرسکون نظر آ رہی تھی، خاص طور پر ٹرمپ کی۔
ٹرمپ نے نہ صرف ممدانی پر تنقید کرنے سے گریز کیا بلکہ کئی بار ان کی تعریف بھی کی۔
صدر نے امید ظاہر کی کہ ممدانی واقعی ایک ’عظیم میئر‘ ثابت ہوں گے۔
بعد میں ٹرمپ نے مزید کہا کہ وہ ’پُراعتماد ہیں کہ وہ بہت اچھا کام کر سکتے ہیں۔‘
جہاد اور فاشزم سے متعلق سوالات کو ٹالا گیا
ممدانی اور ٹرمپ نے میئر کے انتخاب کے دوران ایک دوسرے پر تنقید کے تیر چلائے تھے۔ کمرے میں موجود ایک رپورٹر نے دونوں رہنماؤں کو یاد دلایا کہ ٹرمپ نے ممدانی کو ’کمیونسٹ‘ کہا تھا اور ممدانی نے صدر کو ’آمر‘ قرار دیا تھا۔
لیکن آج دونوں نے اپنے سابقہ بیانات کے بارے میں کئی سوالات کو ٹال دیا اور دوبارہ تعریف کی جانب لوٹ آئے۔
حتیٰ کہ جب رپورٹر نے ممدانی کو مشکل میں ڈالتے ہوئے سوال کیا کہ کیا نو منتخب میئر صدر کو ’فاشسٹ‘ سمجھتے ہیں تو ٹرمپ نے ممدانی کو اس صورتحال سے نکالتے ہوئے کہا ’ٹھیک ہے، آپ بس ہاں کہہ دیں‘، ٹرمپ نے ممدانی کے بازو پر ہلکا سا تھپتھپاتے ہوئے مسکرا کر کہا ’یہ وضاحت کرنے سے آسان ہے۔‘
ٹرمپ نے ممدانی کی سیاست پر زیادہ بات نہیں کی بس رپورٹرز سے کہا: ’ان کے نظریات تھوڑے غیر روایتی ہیں۔‘
شاید سب سے حیران کن بات یہ تھی کہ ٹرمپ نے نیویارک کے گورنر کے لیے امیدوار بننے والے اپنے ایک سیاسی حلیف کی ممدانی پر کی گئی تنقید کو بھی نظر انداز کر دیا۔
ایک رپورٹر نے سوال کیا، ’کیا آپ سمجھتے ہیں کہ آپ اس وقت اوول آفس میں ایک ’جہادی‘ کے ساتھ کھڑے ہیں؟‘ یہ سوال ریپبلکن کانگریس وویمن ایلیز سٹفانک کے حوالے سے تھا۔
ٹرمپ نے فوراً جواب دیا ’نہیں، میں ایسا نہیں سمجھتا۔‘
ٹرمپ نے سٹفانک کے بارے میں کہا ’وہ ایک بہت قابل شخصیت ہیں مگر مہم کے دوران کبھی کبھار لوگ ایسی باتیں کہہ دیتے ہیں۔‘
دونوں کی نیویارک شہر سے ’مشترکہ محبت‘ ہے
ممدانی اور ٹرمپ میں ایک چیز مشترک ہے: دونوں کا تعلق نیویارک سے ہے اور دونوں نے کوئنز ضلع کو اپنا گھر کہا ہے۔
ٹرمپ کا بچپن جیمائیکا سٹیٹس کے علاقے میں گزرا جبکہ ممدانی اس وقت ایسٹوریا میں مقیم ہیں۔
ممدانی کے بقول دونوں کی نیویارک شہر سے ’مشترکہ محبت‘ ہے۔
اگرچہ آج کل ٹرمپ اپنے مین ہیٹن سکائی سکریپر میں کم وقت گزارتے ہیں مگر انھوں نے نیوز کانفرنس کے دوران اپنے آبائی شہر کے بارے میں کافی باتیں کیں۔
ٹرمپ نے کہا ’یہ شہر ایک مثال بن سکتا ہے اور اگر وہ (ممدانی) اس کام میں کامیابی حاصل کریں تو میں بہت خوش ہوں گا۔‘
ایک موقع پر ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ کسی مختلف زمانے میں وہ خود بھی نیویارک کے میئر بننا پسند کرتے۔
مہنگائی اور رہائشی بحران پر توجہ
شاید جمعے کو دونوں رہنماؤں کے مختلف رویے کی ایک وجہ یہ تھی کہ دونوں کی توجہ مہنگائی اور رہائشی اخراجات کے مسائل پر یکساں ہے۔
ٹرمپ نے گذشتہ سال دوبارہ انتخاب جیتا تھا، اس وقت انھوں نے ووٹروں کو سب سے بڑی پریشانی یعنی مہنگائی کے مسئلے پر مسلسل بات کی۔ جیسے ہی صارفین کھانے پینے، رہائش اور دیگر ضروریات کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے پریشان ہوئے تو ٹرمپ نے معاشی حالات میں استحکام لانے کا پیغام دینے کی کوشش کی تھی۔
لیکن اس ماہ کے اوائل میں ہونے والے انتخابات میں ری پبلکنز کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور ڈیموکریٹس نے اہم نشستیں جیتیں۔ سب کی نظریں آئندہ سال ہونے والے مڈٹرم انتخابات پر ہیں جن میں امریکی کانگریس پر کنٹرول کا فیصلہ ہونا ہے۔
اپنے انتخابی مہم کے دوران ممدانی نے سستی رہائش کے فقدان پر مکمل توجہ دی، کچھ اپارٹمنٹس کے کرایوں میں اضافہ روکنے کی تجویز دی اور ساتھ ہی دیگر رہائشی اقدامات بھی پیش کیے۔
ممدانی نے کہا کہ انھوں نے صدر کے ساتھ اس بارے میں بات کی ہے کہ ’نیویارکرز کے لیے رہائش اور زندگی کو سستا کیسے بنایا جا سکتا ہے۔‘
جب بھی ممدانی سے اُن کے اور صدر کے مختلف نظریات کے بارے میں سوال کیا گیا، نو منتخب میئر ہر بار گفتگو کو اس موضوع کی جانب واپس لے آئے۔
ایک سوال کے جواب میں، جو مشرق وسطیٰ میں امن کے حصول کے حوالے سے اُن کے اختلافات پر تھا، ممدانی نے کہا کہ ٹرمپ کے ووٹروں نے اُن سے ’جنگوں کے خاتمے‘ کی خواہش کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ ہمارے رہنما ’زندگی کے بڑھتے ہوئے اخراجات کے بحران‘ کو حل کریں۔


















































