افغان سرحد کی بندش باعث بلوچستان میں مال برادر گاڑیوں کے ڈرائیور مشکلات کا شکار

16

بلوچستان کے سرحدی شہر چمن میں پھنسے کنٹینروں اور دیگر مال بردار گاڑیوں کے ڈرائیوروں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔

ان مال بردار گاڑیوں کے ڈرائیوروں کا کہنا ہے کہ پیسے ختم ہونے کے باعث وہ کھانے پینے کی اشیا خریدنے کے قابل نہیں۔

بڑی تعداد میں پھنسی گاڑیوں میں پاکستانی سامان ہے جو کہ پاکستان کے مختلف شہروں سے افغانستان کے لیے بُک ہوا تھا۔

ڈرائیوروں نے حکومت سے اپیل کی کہ وہ انھیں اس مشکل صورتحال سے نکالنے کے لیے کوئی راستہ نکالیں۔

بلوچستان میں سرکاری حکام کا کہنا ہے کہ چونکہ سرحد کا معاملہ وفاقی حکومت کا ہے اس لیے ڈرائیوروں کے مسئلے کا حل وفاقی حکومت ہی نکال سکتی ہے۔

افغانستان سے متصل سرحدی شہر چمن میں مال بردار گاڑیوں کی ایک بڑی تعداد پاکستان اور افغانستان کے درمیان تناؤ کے باعث 12 اکتوبر سے پھنسی ہوئی ہے۔ کشیدگی اور سرحد کی بندش کے باوجود افغانستان کے سرحدی شہر سپین بولدک میں جو خالی پاکستانی گاڑیاں پھنس گئی تھیں ان کو آنے کے لیے بارڈر کو خصوصی طور پر کھول دیا گیا تھا۔ جبکہ پاکستان سے واپس جانے والے افغان مہاجرین کے لیے بھی سرحد کھلی ہوئی ہے۔

تاہم ان مال بردار گاڑیوں کے بارے میں تاحال کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔ ڈرائیور ملت خان نے بتایا کہ انھیں یہاں پھنسے ہوئے 35 دن سے زیادہ ہوگئے ہیں۔ ان کی گاڑیوں میں سے کسی میں گھی ہے، کسی میں چینی اور کسی میں پرچون کا سامان۔ لیکن سرحد کی بندش کی وجہ سے وہ یہ مال افغانستان نہیں لے جاسکتے۔

انھوں نے بتایا کہ ان کے پاس پیسے ختم ہوگئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کی گاڑیوں میں جو سامان ہے وہ انھوں نے چند کلومیٹر دور سرحد کی دوسری جانب سپین بولدک میں خالی کرنا ہے۔ انھوں نے دونوں حکومتوں سے اپیل کی کہ وہ ان کے لیے کوئی راستہ نکالیں تاکہ یہاں پھنسنے کی وجہ سے وہ جس اذیت سے دوچار ہیں اس سے ان کو نجات ملے۔

ایک اور ڈرائیور نعیم شاہ نے بتایا کہ گاڑیوں میں 50 سے 60 ٹن سامان ہے اور کئی روز سے اس وزن کے باعث ٹائروں کا بڑا نقصان ہوا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کے پاس پیسے وغیرہ ختم ہوگئے ہیں اور ’جب ہم پیسوں کے لیے بروکرز کو فون کرتے ہیں تو ان کا یہی جواب ہوتا ہے کہ وہ خود پیسوں کی تلاش میں ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ گاڑیوں کے مالکان کو چاہییے کہ وہ ڈرائیوروں کا خیال رکھیں۔

ایک اور ڈرائیور عصمت اللہ نے بتایا کہ ان کی گاڑی میں چینی لوڈ ہے جس کو سپین بولدک لے جانا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ گاڑی میں جو ڈیزل پڑا تھا، وہ انھوں نے اپنے گزارے کے لیے فروخت کیا۔

انھوں نے بتایا کہ کراچی سے لے کر یہاں اب تک ہر گاڑی پر ڈیڑھ لاکھ روپے سے دو لاکھ روپے تک خرچہ ہوا ہے۔

ان ڈرائیوروں کی مشکلات کے حوالے سے بلوچستان حکومت کے ایک اعلیٰ عہدیدار کے علاوہ کمشنر کوئٹہ ڈویژن اور دیگر حکام سے رابطہ کیا گیا لیکن انھوں نے کوئی تبصرہ کرنے سے گریز کیا۔ تاہم ایک انتظامی آفیسر نے نام طاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ سرحد کو کھولنے کا اختیار وفاقی حکومت کے پاس ہے۔

خیبر پشتونخوا میں طورخم کی طرح چمن بلوچستان سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان ایک بڑی گزرگاہ ہے۔

ایک ماہ سے زائد کے عرصے سے سرحد کی بندش سے نہ صرف دونوں ممالک کے تاجروں کو نقصان کا سامنا ہے بلکہ بڑی تعداد میں وہ لوگ بھی متاثر ہوئے جن کے روزگار کا انحصار سرحد پر تھا۔