اسلمی: موت کو “ضائع” سمجھنے کے تصور کی جدلیاتی نفی – ابرم بلوچ

0

اسلمی: موت کو “ضائع” سمجھنے کے تصور کی جدلیاتی نفی
‏(ASLAMI: Dialectical Rejection of “Death as Waste”)

13 نومبر: یومِ بلوچ شہداء کے تناظر میں

تحریر: ابرم بلوچ
سابقہ چیئرمین بی ایس او آزاد

دی بلوچستان پوسٹ

مضمون کا آغاز ایک بنیادی سوال سے ہوتا ہے: کیا کسی اعلیٰ مقصد کے لیے مرنا صرف “فنا” ہونا ہے، یا یہ ایک ایسی قربانی ہے جو زندگی سے بھی بلند تر معنویت رکھتی ہے، ایسی معنویت جو انسان کو اخلاقی، فکری اور اجتماعی طور پر ابدیت سے جوڑ دیتی ہے؟ یہ سوال ہمیں ہیگل (Hegel) کے فلسفۂ روح کی طرف لے جاتا ہے۔ ہیگل کے مطابق، روح (Spirit) وہ زندگی نہیں جو موت سے گریز کرے یا اپنے بقا کی فطری خواہش میں قید ہو، بلکہ وہ شعور ہے جو موت کا سامنا کرتے ہوئے بھی اپنی سچائی برقرار رکھتا ہے۔ روح اپنی حقیقت اسی لمحے میں پاتی ہے جب وہ فنا کے امکان کو قبول کرکے خود کو اس سے بلند کرتی ہے۔ یہی ہے قربانی کی جدلیاتی منطق (Dialectical Logic of Sacrifice)،جہاں موت، جو بظاہر نفی (Negation) معلوم ہوتی ہے، درحقیقت وجود کی اعلیٰ تائید اور بقا کا سرچشمہ بن جاتی ہے۔

آزادی یا سچائی کے لیے جان دینے والا شخص مٹتا نہیں؛ وہ روحانی بقا (Spiritual Continuity) کے اس درجے میں داخل ہوتا ہے جو جسمانی زندگی سے زیادہ بامعنی ہے۔

ہیگل کے نزدیک کوئی نفی خالص نفی نہیں ہوتی، کیونکہ ہر نفی میں کسی نہ کسی درجے پر معنی کی بقا (Preservation of Meaning) پوشیدہ رہتی ہے۔ قربانی اسی بقا کو فعلیت (Actualization) عطا کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ “موت بطور ضیاع (Death as Waste)” کا تصور اس فلسفیانہ فریم میں ناممکن ہے، کیونکہ حقیقی قربانی میں موت فنا نہیں بلکہ تخلیقِ معنویت (Creation of Meaning) میں تبدیل ہو جاتی ہے۔

انسانی تاریخ کی مظلوم اقوام، بشمول بلوچ، نے آزادی کی جدوجہد میں ہمیشہ اسی جدلیاتی منطقِ قربانی (Dialectical Logic of Sacrifice) کو اپنا اخلاقی مرکز بنایا۔ ان کے نزدیک زندگی صرف حیاتیاتی تسلسل (Biological Continuity) نہیں، بلکہ ایک اخلاقی اور روحانی معنویت (Moral and Spiritual Meaning) رکھتی ہے۔ جب انسان کی منشا (Will) اور ارادہ (Intent) پر بیرونی قوتیں قابض ہو جائیں، اور اس کی آزادی سلب کر لی جائے، تو ایسی زندگی اپنی معنویت کھو بیٹھتی ہے۔ زندگی کو بامعنی بنانے کے لیے انسان کو ایک اعلیٰ اخلاقی اصول (Moral Principle) اختیار کرنا پڑتا ہے، وہ اصول جو قربانی کے ذریعے اپنی معراج پاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مظلوم اقوام جب غلامی کی زنجیریں توڑتی ہیں تو وہ صرف سیاسی مزاحمت نہیں کرتیں، بلکہ اپنی انسانیت، وقار اور شعور کی بازیافت بھی کرتی ہیں۔ ان کے لیے قربانی بقا کا نہیں بلکہ آزادی کی تخلیق (Creation of Freedom) کا عمل بن جاتی ہے۔ اس کے برعکس، استعماری قوتیں “موت بطور ضیاع” (Death as Waste) کے بیانیے کو فروغ دیتی ہیں، ایک ایسا نظریاتی ہتھیار (Ideological Weapon) جو محکوم کے شعور کو مفلوج کر دیتا ہے۔ وہ قربانی کو “غیر ضروری”، “رومانوی” یا “غیر عقلی” قرار دے کر اس کے اخلاقی جواز کو کمزور کرتی ہیں۔ یہی وہ استعماری منطق ہے جس کے مقابل “اسلمی فلسفہ” اپنی فکری بنیادوں پر ایک جدلیاتی رد (Dialectical Refutation) پیش کرتا ہے۔

بلوچ سماج نے آغازِ قبضہ گیری ہی سے اس منطق کو اپنا فکری محور بنایا۔ آزادی کے لیے بے شمار قربانیاں دی گئیں، وہ قربانیاں جنہوں نے تحریک کو زندہ رکھا اور نسل در نسل منتقل کیا۔ طویل جدوجہد کے بعد ایک ایسا مرحلہ آیا جہاں “موت بطور ضیاع” کی نفی ایک تاریخی ناگزیرت (Historical Necessity) بن گئی۔ یہی وہ لمحہ تھا جہاں “اسلمی فیصلہ” (Aslami Decision) سامنے آیا، ایک فکری اور انقلابی موڑ جس نے قربانی کے معیار کو ایک نئی معنوی بلندی دی۔

“اسلمی فیصلہ” نے قربانی کو محض جذبہ نہیں رہنے دیا، بلکہ اسے تحریکی شعور کا مرکزی جوہر بنا دیا۔ اس نے قربانی کو عملی معنویت (Practical Meaning) اور تاریخی شعور (Historical Consciousness) کے ساتھ جوڑ کر “موت بطور ضیاع” کے تمام استعماری تصورات کو تحلیل کر دیا۔ اسی نفی کی عملی صورت “قربانیِ ریحان” (Sacrifice of Rehan) تھی، ایک ایسا فعل جو محض جسمانی نہیں بلکہ تخلیقِ معنویت (Creation of Meaning) کا مظہر بن گیا۔ اس نے ثابت کیا کہ موت بذاتِ خود فنا نہیں، بلکہ جدوجہد کے عمل میں بقا اور تخلیق کا سلسلہ ہے۔

“اسلمی فیصلہ” کے بعد یہ شعور تحریک کے فکری خمیر میں جذب ہو گیا۔ اس سے پہلے مایوسی تحریک کے اندر ایک عارضی عنصر (Contingent Factor) تھی، جو وقتاً فوقتاً جہدکاروں کی انقلابی موضوعیت (Revolutionary Subjectivity) پر اثر انداز ہوتی تھی۔ مگر “اسلمی فیصلہ” نے مایوسی کو ایک نفسیاتی کیفیت کے بجائے ایک فکری مسئلہ بنا کر اسے جدلیاتی طور پر تحلیل (Dialectically Dissolve) کر دیا۔ اس کے نتیجے میں یقین، ارادہ اور حوصلہ تحریک کے اندر ایک مستقل اور فعال قوت (Active Force) کے طور پر ابھرے۔ یوں موت اب “اختتام” نہیں رہی بلکہ “معنی کی فعلیت” (Actualization of Meaning) بن گئی، وہ لمحہ جہاں نفی (Negation) بقا کا ذریعہ بن گئی، اور فرد اپنی فنا میں اجتماعی زندگی کو دوام بخشتا ہے۔

جب کوئی فرد کسی اعلیٰ مقصد کے لیے اپنی زندگی قربان کرتا ہے، تو وہ اپنی ذات کو اخلاقی تخلیق (Moral Creation) میں بدل دیتا ہے۔ اس لمحے آزادی اپنی صداقت ظاہر کرتی ہے، اور قربانی تقدیر نہیں بلکہ خود اختیار کردہ انجام (Self-Chosen Destiny) بن جاتی ہے۔ “قربانیِ ریحان” نے اجتماعی بقا کی ایسی تمثیل قائم کی جو شکست سے ماورا ہے، اس کی قربانی ایک علامتی فتح (Symbolic Victory) میں بدل گئی، جس نے تحریک کے فکری دھارے کو نئی سمت دی۔”اسلمی فیصلہ” نے جہدکاروں میں یقین اور عزم کی ایک نئی سطح پیدا کی، ایک ایسا یقین جو جذباتی نہیں بلکہ وجودی (Existential) اور شعوری (Conscious) تھا۔ یہ وہ مرحلہ تھا جب انقلابی فرد کو اپنی قربانی کے معنی پر کامل یقین حاصل ہوا: کہ اس کا خون کسی سوداگری یا وقتی مفاد کا حصہ نہیں بلکہ اجتماعی وقار، حریت اور انسانی معنويت کی توسیع ہے۔ یہی یقین اس فکری تبدیلی کی علامت تھا جس نے قربانی کو محض عمل نہیں بلکہ انقلابی صداقت (Revolutionary Truth) اور تاریخی شعور (Historical Consciousness) کی صورت میں متعین کیا۔
اسی یقین اور فکری تسلسل سے “شاری” کا ظہور ہوا، ایک ایسا تاریخی لمحہ جس نے قربانی کی جدلیات کو نئی معنویت عطا کی۔

تاریخ نے پہلی بار محسوس کیا کہ اسے عملی جدلیات (Practical Dialectics) کے ذریعے بدلا جا سکتا ہے؛ کہ شعور اپنے عمل کے ذریعے خود کو نئی سطح پر لے جا سکتا ہے۔ اسی تسلسل نے قربانی کے معیار کو “اسلمی” کے نام سے موسوم کیا۔ “اسلمی” اب صرف ایک علامت نہیں بلکہ بلوچ قومی تحریک میں قربانی کا ایک فلسفیانہ معیار (Philosophical Standard of Sacrifice) بن چکا ہے، ایک ایسا معیار جو طے کرتا ہے کہ قربانی کب، کیوں، اور کیسے تحریک کے وجودی تسلسل (Existential Continuity) میں معنی پیدا کرتی ہے۔

“اسلمی” نے بلوچ قومی تحریک کے فکری ارتقاء کو نئی نظریاتی بنیادیں (Conceptual Foundations) فراہم کیں۔ اس کے ذریعے تحریک میں اخلاقی استقامت (Moral Integrity)، تنظیمی توانائی (Organizational Vitality)، اور تاریخی خود آگاہی (Historical Self-Awareness) پیدا ہوئی۔ اب تحریک کے اندر اور باہر دونوں سطحوں پر قربانی کو “ضائع” سمجھنے والے مفروضے فکری طور پر خود منہدم (Self-Defeating) ہونے لگے۔ اسلمی فلسفہ نے محض تحریک کی تشکیلِ نو (Reconstruction) نہیں کی بلکہ بلوچ سماج میں انقلابی حوصلہ بھی پیدا کیا۔ اس نے قربانی کو ایک فکری مرکز کے طور پر منظم کیا، جس سے انقلابی نظم و ضبط (Revolutionary Discipline) اور اجتماعی یقین کی نئی روح پیدا ہوئی۔

اگرچہ بعض حلقے اب بھی “موت بطور ضیاع” (Death as Waste) کے استعماری مفروضے کو زندہ رکھنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ تحریک میں مایوسی اور بے یقینی پھیلائی جا سکے، مگر “اسلمی فلسفہ” اپنی نظریاتی وضاحت اور فکری منطق کے باعث ان کوششوں کو غیر مؤثر کر دیتا ہے۔ یہ فلسفہ فکری انحطاط کے خلاف ایک وجودی مزاحمت (Existential Resistance) ہے، ایسی مزاحمت جس میں شک، بے یقینی اور مایوسی خود اپنی نفی میں تحلیل ہو جاتے ہیں۔ “اسلمی” اپنی قربانی کی فکری اساس ہے جس کے سامنے کمزور نظریاتی حلقے اگرچہ اختلاف رکھتے ہیں، مگر درحقیقت ان کا اختلاف اپنی ہی فکری نفی (Self-Negation) میں بدل جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ براہِ راست تصادم کے بجائے سوالات اور ابہامات کے پردے میں نظریاتی شکوک پھیلاتے ہیں۔ مگر “اسلمی” اپنی جدلیاتی وضاحت (Dialectical Clarity) اور فکری استحکام کے باعث ان تمام ابہامات کو تحلیل کر دیتا ہے۔

“اسلمی” مہم جوئی (Adventurism) نہیں بلکہ قربانی کا اعلیٰ ترین معیار (Highest Standard of Sacrifice) ہے۔ اس فلسفے پر یقین رکھنے والے افراد مہم جو نہیں بلکہ شعوری انقلابی (Conscious Revolutionaries) ہیں، ایسے افراد جو قربانی کو ردِعمل نہیں بلکہ تبدیلی (Transformation) کے اصول کے طور پر سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک زندگی صرف بقا (Survival) نہیں بلکہ ایک اخلاقی و فکری سفر ہے، انسانی ہمدردی کی معراج (Fulfilment of Humanity) اور آزادی کی بازیافت (Reclamation of Freedom) کی سمت میں مسلسل پیش رفت ہے۔ اسی لیے “اسلمی فلسفہ” زندگی کو حیاتیاتی وجود (Biological Existence) کے بجائے معنوی اور اخلاقی وجود (Moral and Ideational Existence) کے طور پر دیکھتا ہے۔ “اسلمی فلسفے” کے مطابق، انقلابی جدوجہد میں موت کا تعین دشمن نہیں، بلکہ انقلابی خود کرتا ہے۔ جب کوئی شخص اپنی موت کو شعوری طور پر قبول کرتا ہے، تو وہ فنا نہیں ہوتا؛ بلکہ ارادی قربانی (Willed Sacrifice) کے ذریعے ایک ابدی معنویت (Eternal Meaning) پیدا کرتا ہے۔ اس لمحے اس کا خون ایک فرد کا نہیں رہتا بلکہ تاریخی شعور (Consciousness of History) کا حصہ بن جاتا ہے، وہ زندہ توانائی (Living Energy) جو نئے انقلابیوں کو جنم دیتی ہے۔ اس منطق میں قربانی اپنی نفی کے ذریعے تخلیق کا عمل ہے؛ یعنی موت کا مفہوم فنا نہیں بلکہ بقا کی تخلیق (Creation of Enduring Being) میں بدل جاتا ہے۔ چنانچہ انقلاب میں موت محض انجام نہیں بلکہ معنی کی پیداوار کا لمحہ ہے۔ “اسلمی فلسفہ” موت کو اختتام نہیں بلکہ انسانی آزادی کے تسلسل (Continuity of Human Freedom) کی صورت میں دیکھتا ہے۔ اس کے نزدیک موت، جب شعوری اور اخلاقی بنیاد پر قبول کی جائے، تو وہ زندگی کی سب سے روشن توسیع (Luminous Extension of Life) بن جاتی ہے۔

موت بلاشبہ ایک حیاتیاتی حقیقت (Biological Reality) ہے، لیکن اگر اسے جدوجہد میں مرکزیت دی جائے، تو زندگی محض سانس لینے کے عمل تک محدود ہو جاتی ہے۔ اس صورت میں وجود کا مفہوم جسمانی بقا (Physical Survival) تک سمٹ آتا ہے، اور زندگی اپنی اخلاقی اور فکری معنویت کھو بیٹھتی ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں “موت بطور ضیاع” (Death as Waste) کا نظریہ جنم لیتا ہے، وہ استعماری تصور جو زندگی کو معنی یا مقصد کے اظہار کے بجائے صرف سانس کے تسلسل کے طور پر دیکھتا ہے۔ “اسلمی” اس محدود تصور کی نفی کرتا ہے۔ اس کے نزدیک زندگی صرف بقا کا تسلسل نہیں، بلکہ معنی کی تخلیقی فعلیت (Creative Actualization of Meaning) ہے۔ یہی وہ بنیادی فرق ہے جو استعماری ڈسکورس (Colonial Discourse) اور انقلابی فلسفہ (Revolutionary Philosophy) کے درمیان حائل ہے: استعماری فکر زندگی کو محض بقا کے جبر تک محدود رکھتی ہے، جبکہ انقلابی فکر اسے آزادی، اخلاق اور شعور کے عمل میں بدل دیتی ہے۔ “اسلمی فلسفہ” اسی دوسرے تناظر میں کھڑا ہے، جہاں زندگی کو حیاتیاتی تسلسل نہیں، بلکہ انقلابی اصول (Revolutionary Principle)، نظریاتی بصیرت (Ideological Vision)، اور تاریخی شعور (Historical Consciousness) کی صورت میں سمجھا جاتا ہے۔

“اسلمی فلسفہ” محض ایک نظری تعبیر (Theoretical Proposition) نہیں، بلکہ عملی سطح (Practical Plane) پر اپنی صداقت ثابت کر چکا ہے۔ “قربانیِ ریحان” کے بعد جو فکری اور تحریکی تغیر سامنے آیا، وہ محض جذباتی ردعمل نہیں بلکہ ایک ساختیاتی (Structural) اور شعوری (Cognitive) انقلاب تھا۔ اس تبدیلی کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ اسے اس مخصوص زمان و مکان (Spatio-Temporal Context) میں دیکھا جائے، جہاں یہ قربانی وقوع پذیر ہوئی۔ اس لمحے مایوسی، جذبہ میں، سستی ہمت میں، اور ابہام ایک واضح سمت میں بدل گیا۔ بلوچ تحریکِ آزادی کے فکری محور میں قربانی پہلی بار ایک منظم اور شعوری انقلابی عمل (Conscious and Organized Revolutionary Praxis) کے طور پر تسلیم ہوئی۔ اس لمحے قربانی نے تحریک کے لیے صرف جذبہ نہیں بلکہ ایک فکری منطق (Philosophical Logic) اور انقلابی شعور کی حیثیت اختیار کی۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔