اسلمی: موت کو “ضائع” سمجھنے کے تصور کی جدلیاتی نفی – ابرم بلوچ

754

اسلمی: موت کو “ضائع” سمجھنے کے تصور کی جدلیاتی نفی
‏(ASLAMI: Dialectical Rejection of “Death as Waste”)

13 نومبر: یومِ بلوچ شہداء کے تناظر میں

تحریر: ابرم بلوچ
سابقہ چیئرمین بی ایس او آزاد

دی بلوچستان پوسٹ

مضمون کا آغاز ایک بنیادی سوال سے ہوتا ہے: کیا کسی اعلیٰ مقصد کے لیے مرنا صرف “فنا” ہونا ہے، یا یہ ایک ایسی قربانی ہے جو زندگی سے بھی بلند تر معنویت رکھتی ہے، ایسی معنویت جو انسان کو اخلاقی، فکری اور اجتماعی طور پر ابدیت سے جوڑ دیتی ہے؟ یہ سوال ہمیں ہیگل (Hegel) کے فلسفۂ روح کی طرف لے جاتا ہے۔ ہیگل کے مطابق، روح (Spirit) وہ زندگی نہیں جو موت سے گریز کرے یا اپنے بقا کی فطری خواہش میں قید ہو، بلکہ وہ شعور ہے جو موت کا سامنا کرتے ہوئے بھی اپنی سچائی برقرار رکھتا ہے۔ روح اپنی حقیقت اسی لمحے میں پاتی ہے جب وہ فنا کے امکان کو قبول کرکے خود کو اس سے بلند کرتی ہے۔ یہی ہے قربانی کی جدلیاتی منطق (Dialectical Logic of Sacrifice)،جہاں موت، جو بظاہر نفی (Negation) معلوم ہوتی ہے، درحقیقت وجود کی اعلیٰ تائید اور بقا کا سرچشمہ بن جاتی ہے۔

آزادی یا سچائی کے لیے جان دینے والا شخص مٹتا نہیں؛ وہ روحانی بقا (Spiritual Continuity) کے اس درجے میں داخل ہوتا ہے جو جسمانی زندگی سے زیادہ بامعنی ہے۔

ہیگل کے نزدیک کوئی نفی خالص نفی نہیں ہوتی، کیونکہ ہر نفی میں کسی نہ کسی درجے پر معنی کی بقا (Preservation of Meaning) پوشیدہ رہتی ہے۔ قربانی اسی بقا کو فعلیت (Actualization) عطا کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ “موت بطور ضیاع (Death as Waste)” کا تصور اس فلسفیانہ فریم میں ناممکن ہے، کیونکہ حقیقی قربانی میں موت فنا نہیں بلکہ تخلیقِ معنویت (Creation of Meaning) میں تبدیل ہو جاتی ہے۔

انسانی تاریخ کی مظلوم اقوام، بشمول بلوچ، نے آزادی کی جدوجہد میں ہمیشہ اسی جدلیاتی منطقِ قربانی (Dialectical Logic of Sacrifice) کو اپنا اخلاقی مرکز بنایا۔ ان کے نزدیک زندگی صرف حیاتیاتی تسلسل (Biological Continuity) نہیں، بلکہ ایک اخلاقی اور روحانی معنویت (Moral and Spiritual Meaning) رکھتی ہے۔ جب انسان کی منشا (Will) اور ارادہ (Intent) پر بیرونی قوتیں قابض ہو جائیں، اور اس کی آزادی سلب کر لی جائے، تو ایسی زندگی اپنی معنویت کھو بیٹھتی ہے۔ زندگی کو بامعنی بنانے کے لیے انسان کو ایک اعلیٰ اخلاقی اصول (Moral Principle) اختیار کرنا پڑتا ہے، وہ اصول جو قربانی کے ذریعے اپنی معراج پاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مظلوم اقوام جب غلامی کی زنجیریں توڑتی ہیں تو وہ صرف سیاسی مزاحمت نہیں کرتیں، بلکہ اپنی انسانیت، وقار اور شعور کی بازیافت بھی کرتی ہیں۔ ان کے لیے قربانی بقا کا نہیں بلکہ آزادی کی تخلیق (Creation of Freedom) کا عمل بن جاتی ہے۔ اس کے برعکس، استعماری قوتیں “موت بطور ضیاع” (Death as Waste) کے بیانیے کو فروغ دیتی ہیں، ایک ایسا نظریاتی ہتھیار (Ideological Weapon) جو محکوم کے شعور کو مفلوج کر دیتا ہے۔ وہ قربانی کو “غیر ضروری”، “رومانوی” یا “غیر عقلی” قرار دے کر اس کے اخلاقی جواز کو کمزور کرتی ہیں۔ یہی وہ استعماری منطق ہے جس کے مقابل “اسلمی فلسفہ” اپنی فکری بنیادوں پر ایک جدلیاتی رد (Dialectical Refutation) پیش کرتا ہے۔

بلوچ سماج نے آغازِ قبضہ گیری ہی سے اس منطق کو اپنا فکری محور بنایا۔ آزادی کے لیے بے شمار قربانیاں دی گئیں، وہ قربانیاں جنہوں نے تحریک کو زندہ رکھا اور نسل در نسل منتقل کیا۔ طویل جدوجہد کے بعد ایک ایسا مرحلہ آیا جہاں “موت بطور ضیاع” کی نفی ایک تاریخی ناگزیرت (Historical Necessity) بن گئی۔ یہی وہ لمحہ تھا جہاں “اسلمی فیصلہ” (Aslami Decision) سامنے آیا، ایک فکری اور انقلابی موڑ جس نے قربانی کے معیار کو ایک نئی معنوی بلندی دی۔

“اسلمی فیصلہ” نے قربانی کو محض جذبہ نہیں رہنے دیا، بلکہ اسے تحریکی شعور کا مرکزی جوہر بنا دیا۔ اس نے قربانی کو عملی معنویت (Practical Meaning) اور تاریخی شعور (Historical Consciousness) کے ساتھ جوڑ کر “موت بطور ضیاع” کے تمام استعماری تصورات کو تحلیل کر دیا۔ اسی نفی کی عملی صورت “قربانیِ ریحان” (Sacrifice of Rehan) تھی، ایک ایسا فعل جو محض جسمانی نہیں بلکہ تخلیقِ معنویت (Creation of Meaning) کا مظہر بن گیا۔ اس نے ثابت کیا کہ موت بذاتِ خود فنا نہیں، بلکہ جدوجہد کے عمل میں بقا اور تخلیق کا سلسلہ ہے۔

“اسلمی فیصلہ” کے بعد یہ شعور تحریک کے فکری خمیر میں جذب ہو گیا۔ اس سے پہلے مایوسی تحریک کے اندر ایک عارضی عنصر (Contingent Factor) تھی، جو وقتاً فوقتاً جہدکاروں کی انقلابی موضوعیت (Revolutionary Subjectivity) پر اثر انداز ہوتی تھی۔ مگر “اسلمی فیصلہ” نے مایوسی کو ایک نفسیاتی کیفیت کے بجائے ایک فکری مسئلہ بنا کر اسے جدلیاتی طور پر تحلیل (Dialectically Dissolve) کر دیا۔ اس کے نتیجے میں یقین، ارادہ اور حوصلہ تحریک کے اندر ایک مستقل اور فعال قوت (Active Force) کے طور پر ابھرے۔ یوں موت اب “اختتام” نہیں رہی بلکہ “معنی کی فعلیت” (Actualization of Meaning) بن گئی، وہ لمحہ جہاں نفی (Negation) بقا کا ذریعہ بن گئی، اور فرد اپنی فنا میں اجتماعی زندگی کو دوام بخشتا ہے۔

جب کوئی فرد کسی اعلیٰ مقصد کے لیے اپنی زندگی قربان کرتا ہے، تو وہ اپنی ذات کو اخلاقی تخلیق (Moral Creation) میں بدل دیتا ہے۔ اس لمحے آزادی اپنی صداقت ظاہر کرتی ہے، اور قربانی تقدیر نہیں بلکہ خود اختیار کردہ انجام (Self-Chosen Destiny) بن جاتی ہے۔ “قربانیِ ریحان” نے اجتماعی بقا کی ایسی تمثیل قائم کی جو شکست سے ماورا ہے، اس کی قربانی ایک علامتی فتح (Symbolic Victory) میں بدل گئی، جس نے تحریک کے فکری دھارے کو نئی سمت دی۔”اسلمی فیصلہ” نے جہدکاروں میں یقین اور عزم کی ایک نئی سطح پیدا کی، ایک ایسا یقین جو جذباتی نہیں بلکہ وجودی (Existential) اور شعوری (Conscious) تھا۔ یہ وہ مرحلہ تھا جب انقلابی فرد کو اپنی قربانی کے معنی پر کامل یقین حاصل ہوا: کہ اس کا خون کسی سوداگری یا وقتی مفاد کا حصہ نہیں بلکہ اجتماعی وقار، حریت اور انسانی معنويت کی توسیع ہے۔ یہی یقین اس فکری تبدیلی کی علامت تھا جس نے قربانی کو محض عمل نہیں بلکہ انقلابی صداقت (Revolutionary Truth) اور تاریخی شعور (Historical Consciousness) کی صورت میں متعین کیا۔
اسی یقین اور فکری تسلسل سے “شاری” کا ظہور ہوا، ایک ایسا تاریخی لمحہ جس نے قربانی کی جدلیات کو نئی معنویت عطا کی۔

تاریخ نے پہلی بار محسوس کیا کہ اسے عملی جدلیات (Practical Dialectics) کے ذریعے بدلا جا سکتا ہے؛ کہ شعور اپنے عمل کے ذریعے خود کو نئی سطح پر لے جا سکتا ہے۔ اسی تسلسل نے قربانی کے معیار کو “اسلمی” کے نام سے موسوم کیا۔ “اسلمی” اب صرف ایک علامت نہیں بلکہ بلوچ قومی تحریک میں قربانی کا ایک فلسفیانہ معیار (Philosophical Standard of Sacrifice) بن چکا ہے، ایک ایسا معیار جو طے کرتا ہے کہ قربانی کب، کیوں، اور کیسے تحریک کے وجودی تسلسل (Existential Continuity) میں معنی پیدا کرتی ہے۔

“اسلمی” نے بلوچ قومی تحریک کے فکری ارتقاء کو نئی نظریاتی بنیادیں (Conceptual Foundations) فراہم کیں۔ اس کے ذریعے تحریک میں اخلاقی استقامت (Moral Integrity)، تنظیمی توانائی (Organizational Vitality)، اور تاریخی خود آگاہی (Historical Self-Awareness) پیدا ہوئی۔ اب تحریک کے اندر اور باہر دونوں سطحوں پر قربانی کو “ضائع” سمجھنے والے مفروضے فکری طور پر خود منہدم (Self-Defeating) ہونے لگے۔ اسلمی فلسفہ نے محض تحریک کی تشکیلِ نو (Reconstruction) نہیں کی بلکہ بلوچ سماج میں انقلابی حوصلہ بھی پیدا کیا۔ اس نے قربانی کو ایک فکری مرکز کے طور پر منظم کیا، جس سے انقلابی نظم و ضبط (Revolutionary Discipline) اور اجتماعی یقین کی نئی روح پیدا ہوئی۔

اگرچہ بعض حلقے اب بھی “موت بطور ضیاع” (Death as Waste) کے استعماری مفروضے کو زندہ رکھنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ تحریک میں مایوسی اور بے یقینی پھیلائی جا سکے، مگر “اسلمی فلسفہ” اپنی نظریاتی وضاحت اور فکری منطق کے باعث ان کوششوں کو غیر مؤثر کر دیتا ہے۔ یہ فلسفہ فکری انحطاط کے خلاف ایک وجودی مزاحمت (Existential Resistance) ہے، ایسی مزاحمت جس میں شک، بے یقینی اور مایوسی خود اپنی نفی میں تحلیل ہو جاتے ہیں۔ “اسلمی” اپنی قربانی کی فکری اساس ہے جس کے سامنے کمزور نظریاتی حلقے اگرچہ اختلاف رکھتے ہیں، مگر درحقیقت ان کا اختلاف اپنی ہی فکری نفی (Self-Negation) میں بدل جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ براہِ راست تصادم کے بجائے سوالات اور ابہامات کے پردے میں نظریاتی شکوک پھیلاتے ہیں۔ مگر “اسلمی” اپنی جدلیاتی وضاحت (Dialectical Clarity) اور فکری استحکام کے باعث ان تمام ابہامات کو تحلیل کر دیتا ہے۔

“اسلمی” مہم جوئی (Adventurism) نہیں بلکہ قربانی کا اعلیٰ ترین معیار (Highest Standard of Sacrifice) ہے۔ اس فلسفے پر یقین رکھنے والے افراد مہم جو نہیں بلکہ شعوری انقلابی (Conscious Revolutionaries) ہیں، ایسے افراد جو قربانی کو ردِعمل نہیں بلکہ تبدیلی (Transformation) کے اصول کے طور پر سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک زندگی صرف بقا (Survival) نہیں بلکہ ایک اخلاقی و فکری سفر ہے، انسانی ہمدردی کی معراج (Fulfilment of Humanity) اور آزادی کی بازیافت (Reclamation of Freedom) کی سمت میں مسلسل پیش رفت ہے۔ اسی لیے “اسلمی فلسفہ” زندگی کو حیاتیاتی وجود (Biological Existence) کے بجائے معنوی اور اخلاقی وجود (Moral and Ideational Existence) کے طور پر دیکھتا ہے۔ “اسلمی فلسفے” کے مطابق، انقلابی جدوجہد میں موت کا تعین دشمن نہیں، بلکہ انقلابی خود کرتا ہے۔ جب کوئی شخص اپنی موت کو شعوری طور پر قبول کرتا ہے، تو وہ فنا نہیں ہوتا؛ بلکہ ارادی قربانی (Willed Sacrifice) کے ذریعے ایک ابدی معنویت (Eternal Meaning) پیدا کرتا ہے۔ اس لمحے اس کا خون ایک فرد کا نہیں رہتا بلکہ تاریخی شعور (Consciousness of History) کا حصہ بن جاتا ہے، وہ زندہ توانائی (Living Energy) جو نئے انقلابیوں کو جنم دیتی ہے۔ اس منطق میں قربانی اپنی نفی کے ذریعے تخلیق کا عمل ہے؛ یعنی موت کا مفہوم فنا نہیں بلکہ بقا کی تخلیق (Creation of Enduring Being) میں بدل جاتا ہے۔ چنانچہ انقلاب میں موت محض انجام نہیں بلکہ معنی کی پیداوار کا لمحہ ہے۔ “اسلمی فلسفہ” موت کو اختتام نہیں بلکہ انسانی آزادی کے تسلسل (Continuity of Human Freedom) کی صورت میں دیکھتا ہے۔ اس کے نزدیک موت، جب شعوری اور اخلاقی بنیاد پر قبول کی جائے، تو وہ زندگی کی سب سے روشن توسیع (Luminous Extension of Life) بن جاتی ہے۔

موت بلاشبہ ایک حیاتیاتی حقیقت (Biological Reality) ہے، لیکن اگر اسے جدوجہد میں مرکزیت دی جائے، تو زندگی محض سانس لینے کے عمل تک محدود ہو جاتی ہے۔ اس صورت میں وجود کا مفہوم جسمانی بقا (Physical Survival) تک سمٹ آتا ہے، اور زندگی اپنی اخلاقی اور فکری معنویت کھو بیٹھتی ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں “موت بطور ضیاع” (Death as Waste) کا نظریہ جنم لیتا ہے، وہ استعماری تصور جو زندگی کو معنی یا مقصد کے اظہار کے بجائے صرف سانس کے تسلسل کے طور پر دیکھتا ہے۔ “اسلمی” اس محدود تصور کی نفی کرتا ہے۔ اس کے نزدیک زندگی صرف بقا کا تسلسل نہیں، بلکہ معنی کی تخلیقی فعلیت (Creative Actualization of Meaning) ہے۔ یہی وہ بنیادی فرق ہے جو استعماری ڈسکورس (Colonial Discourse) اور انقلابی فلسفہ (Revolutionary Philosophy) کے درمیان حائل ہے: استعماری فکر زندگی کو محض بقا کے جبر تک محدود رکھتی ہے، جبکہ انقلابی فکر اسے آزادی، اخلاق اور شعور کے عمل میں بدل دیتی ہے۔ “اسلمی فلسفہ” اسی دوسرے تناظر میں کھڑا ہے، جہاں زندگی کو حیاتیاتی تسلسل نہیں، بلکہ انقلابی اصول (Revolutionary Principle)، نظریاتی بصیرت (Ideological Vision)، اور تاریخی شعور (Historical Consciousness) کی صورت میں سمجھا جاتا ہے۔

“اسلمی فلسفہ” محض ایک نظری تعبیر (Theoretical Proposition) نہیں، بلکہ عملی سطح (Practical Plane) پر اپنی صداقت ثابت کر چکا ہے۔ “قربانیِ ریحان” کے بعد جو فکری اور تحریکی تغیر سامنے آیا، وہ محض جذباتی ردعمل نہیں بلکہ ایک ساختیاتی (Structural) اور شعوری (Cognitive) انقلاب تھا۔ اس تبدیلی کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ اسے اس مخصوص زمان و مکان (Spatio-Temporal Context) میں دیکھا جائے، جہاں یہ قربانی وقوع پذیر ہوئی۔ اس لمحے مایوسی، جذبہ میں، سستی ہمت میں، اور ابہام ایک واضح سمت میں بدل گیا۔ بلوچ تحریکِ آزادی کے فکری محور میں قربانی پہلی بار ایک منظم اور شعوری انقلابی عمل (Conscious and Organized Revolutionary Praxis) کے طور پر تسلیم ہوئی۔ اس لمحے قربانی نے تحریک کے لیے صرف جذبہ نہیں بلکہ ایک فکری منطق (Philosophical Logic) اور انقلابی شعور کی حیثیت اختیار کی۔

آج آٹھ سال بعد بلوچ قومی تحریک کے جس منظرنامے کو ہم دیکھ رہے ہیں، وہ آٹھ سال قبل کے ماحول سے یکسر مختلف ہے۔ اس وقت فکری مباحث کی نوعیت مختلف تھی، تحریک کو بدلنے کے زاویے مختلف تھے، اور “ارتقاء” کو قدرتی بہاؤ (Natural Progression) پر چھوڑ دینے کا رجحان زیادہ تھا۔ لیکن “اسلمی فلسفہ” نے اس “کمزور فکری ماحول” کو شعوری عمل (Conscious Praxis) میں بدل دیا۔ یہ قربانی ایک ایسی انقلابی تبدیلی (Revolutionary Transformation) لائی جس کی پیش بندی تحریک کے اندرونی اور بیرونی سطح پر دوست اور دشمن دونوں نہیں کر سکے۔ وہ اس تبدیلی کے امکانات کو نہ سمجھ سکے، نہ اس کی گہرائی کو تسلیم کر سکے۔ لیکن انقلابی تبدیلی، تسلیم یا انکار سے ماورا ہوتی ہے؛ یہ وہ قوت ہے جو جمود کو توڑتی ہے، کمزور مفروضوں کو مٹا دیتی ہے، اور ان کی جگہ طاقتور خیال (Potent Idea) کو جنم دیتی ہے۔

آج بلوچ قومی تحریک جس فکرِ نو (New Consciousness) کی بنیاد پر آگے بڑھ رہی ہے، اس کا فکری و اخلاقی مرکز “اسلمی فلسفہ” ہے، ایک ایسا نظریہ جو نہ ماضی کا منکر ہے، نہ حال کا اسیر، اور نہ ہی خود کو کمالِ مطلق (Absolute Perfection) سمجھتا ہے۔ “اسلمی فلسفہ” دراصل حرکت، تغیر، اور خود آگہی (Self-Awareness) کا مسلسل عمل ہے، ایک فکری حرکیات (Dynamic Process of Thought) جو ہر عہد میں اپنے لیے نئے معنوی دائرے تخلیق کرتی ہے۔ “اسلمی” کو کامل مان لینا درحقیقت اس کے بنیادی فلسفیانہ جوہر، یعنی ارتقاء (Evolution) اور نفی کی جدلیات (Dialectics of Negation)، سے انکار کے مترادف ہے۔ “اسلمی” کے نزدیک اگر تحریک خود کو مطلق سمجھ بیٹھے، تو وہ اپنے اندر کے تمام ارتقائی امکانات (Possibilities of Becoming) کو ختم کر دیتی ہے۔ “اسلمی فلسفہ” کے نزدیک جمود (Stagnation) دراصل موت ہے، کیونکہ جمود روحِ آزادی (Spirit of Freedom) کی نفی کرتا ہے۔یہ فکر ہیگل’ (Hegel) کی اس منطق سے ہم آہنگ ہے کہ روح اپنی بقا نفی کے ذریعے حاصل کرتی ہے؛ وہ تب تک زندہ رہتی ہے جب تک خود کو بدلنے کی جرأت رکھتی ہے۔ اسی طرح “اسلمی فلسفہ” یہ واضح کرتا ہے کہ تحریک کوئی جامد مظہر نہیں بلکہ ایک زندہ، خود آگاہ، اور تاریخی شعور (Living Historical Consciousness) ہے جو اپنی پرانی صورتوں کو توڑ کر نئی معنویت میں خود کو ازسرِنو تشکیل دیتا ہے۔ یہی وہ ہیگلی منطقِ بقا بذریعہ نفی (Hegelian Logic of Preservation through Negation) ہے جو “اسلمی فکر” کے مرکز میں موجود ہے۔ یہ ماضی کو رد نہیں کرتا بلکہ اسے “مادہ” (Substance) کے طور پر جذب کرتا ہے، ایسا جذب جو جمود نہیں بلکہ تخلیقِ نو (Re-Creation) کی قوت پیدا کرتا ہے۔ “اسلمی” کے نزدیک ماضی کی روایات، قربانیاں اور جدوجہد جامد ورثہ نہیں بلکہ متحرک توانائی (Dynamic Energy) ہیں جو حال کے شعور میں ضم ہو کر مستقبل کی نئی معنویت تخلیق کرتی ہیں۔ اس طرح “اسلمی فلسفہ” ماضی کو یاد رکھنے نہیں بلکہ اسے مستقبل میں بدلنے کی اخلاقی جرأت (Moral Courage to Transform the Past into the Future) عطا کرتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ “اسلمی فلسفہ” تحریک کو ماضی کے تقلیدی سانچوں میں منجمد نہیں ہونے دیتا۔ اس کے نزدیک تحریکِ آزادی کوئی مقدس روایت نہیں جسے محض محفوظ رکھا جائے، بلکہ ایک زندہ روح (Living Spirit) ہے جسے ہر نسل اپنے عہد کے مطابق نئی توانائی بخشتی ہے۔

یہ فلسفہ اس بات پر اصرار کرتا ہے کہ تحریکِ آزادی کو اپنے شعور، اپنی ضرورت، اور اپنے تاریخی لمحے (Historical Moment) کے مطابق ازسرِنو تشکیل (Reconstitution) پانا ہوگا، یہی تحریک کی معنویت بھی ہے اور اس کی بقا بھی ہے۔ “شعور” (Consciousness)،”قربانی” (Sacrifice)، اور “تبدیلی” (Change)، یہی “اسلمی فلسفے” کے تین بنیادی ستون ہیں۔ ان کے مطابق “کل” کو “آج” سے زیادہ باشعور، منظم، اور فعال ہونا چاہیے؛ کیونکہ موجودہ لمحے کو کمال سمجھ لینا خود “اسلمی اصول” کی نفی ہے۔ “اسلمی” وہ انقلابی بصیرت (Revolutionary Insight) ہے جو تبدیلی کو محض وقت کی مجبوری نہیں بلکہ ایک نطریاتی و شعوری فریضہ (Ideological and Conscious Duty) قرار دیتی ہے۔ یہ فلسفہ بلوچ قومی تحریک میں انقلابی روایات کو منظم کر کے انہیں نئی معنویت بخشتا ہے، اور ردّ انقلابی رجحانات (Counter-Revolutionary Tendencies) جیسے ذاتی انتقام، ضد، اور جمود کو فکری سطح پر تحلیل (Intellectual Dissolution) کر دیتا ہے۔ “اسلمی فلسفہ” تحریکی نظم و ضبط (Revolutionary Discipline) اور مثبت فکری فضا (Positive Intellectual Climate) کو جنم دیتا ہے۔

یہی فلسفہ ہمیں “یومِ شہداء بلوچ” کے فکری اور اخلاقی مفہوم تک لے جاتا ہے۔ 13 نومبر کا دن اس قربانی کے تصور کی علامت ہے جس میں “موت بطور ضیاع” (Death as Waste) کے نظریے کو شعوری طور پر رد کر دیا گیا۔ یہ دن اُن کرداروں کی یاد ہے جنہوں نے موت کو فنا نہیں بلکہ بقا کی تخلیق (Creation of Enduring Being) میں بدل دیا، یعنی موت کو انجام نہیں بلکہ جدوجہد کے تسلسل (Continuity of Struggle) کی نئی ابتدا بنا دیا۔

بی ایس او آزاد کا یہ فیصلہ محض یاد یا عقیدت کا اظہار نہیں تھا، بلکہ “اسلمی فلسفے کی عملی منطق” (Practical Logic of Aslami Philosophy) کا واضح مظہر تھا۔ جب تنظیم نے 2010ء میں 13 نومبر کو “یومِ شہداء بلوچ” کے طور پر منانے کا اعلان کیا، تو یہ صرف ایک تنظیمی اقدام نہیں بلکہ ایک فکری اعلان (Intellectual Declaration) تھا، یہ اعلان کہ قربانی کو ماضی کی یاد سے نکال کر حال کے شعور اور مستقبل کی تشکیل کا حصہ بنایا جائے۔ اس سے قبل 2006ء کے کونسل سیشن کے بعد جب یہ پروگرام پہلی بار پیش کیا گیا، تو اسے رد انقلابی اختلاف اور ابہام کے باعث رد کر دیا گیا، کیونکہ اُس وقت رد انقلابیوں کے نزدیک قربانی کی فلسفیانہ معنویت (Philosophical Significance) پوری طرح واضح نہیں تھی۔ مگر وقت نے ثابت کیا کہ جنہوں نے یہ تجویز پیش کی، وہ دراصل “واضح انقلابی سمت” (Revolutionary Direction) میں کھڑے تھے۔ ان کے نزدیک یہ دن محض یاد کا موقع نہیں بلکہ تحریکی شعور کی تجدید (Renewal of Revolutionary Consciousness) کا عہد تھا۔ یہی وہ موڑ تھا جہاں بی ایس او آزاد نے جدوجہد کے تصور میں ایک نئی فکری جہت پیدا کی، ایک ایسی جہت جس نے “یاد” کو “شعور” میں، اور “غم” کو “حرکت” میں بدل دیا۔ یوں 13 نومبر محض ایک دن نہیں بلکہ قربانی، مزاحمت، اور انسانی وقار (Human Dignity) کے باہمی ربط کا نظریاتی استعارہ (Philosophical Symbol) بن گیا۔

“یومِ شہداء بلوچ” موت کا دن نہیں بلکہ زندگی کے تسلسل (Continuation of Life) کا دن ہے۔ یہ اس شعور کی یاد دہانی ہے کہ جب موت جدوجہد کا نتیجہ بن جائے تو وہ فنا نہیں بلکہ خلقِ معنی (Creation of Meaning) بن جاتی ہے۔ یہی منطق بلوچ تحریک میں قربانی کو تقدیر نہیں بلکہ خود اختیار کردہ انجام (Self-Chosen Destiny) بناتی ہے۔ ہیگل (Hegel) کی “منطقِ نفی” (Logic of Negation) کے مطابق، حقیقت اپنی نفی سے بقا حاصل کرتی ہے؛ نفی تباہی نہیں بلکہ تحفظ کا ذریعہ ہے۔ اسی تناظر میں بلوچ شہداء کی قربانی روحِ آزادی (Spirit of Freedom) کی تجدید (Renewal) ہے، وہ لمحہ جب انسان اپنے وجود کو اخلاقی و روحانی بلندی پر لے جاتا ہے۔ یہ دن صرف یاد کا نہیں بلکہ فکری اور اصولی تجدید (Intellectual and Principal Renewal) کا دن ہے، ایک ایسا لمحہ جب قربانی “نظمِ شعور” (Order of Consciousness) بن جاتی ہے۔ اسی مقام پر قربانی تحریک کی اخلاقی نہیں بلکہ وجودی بنیاد (Existential Foundation) میں ڈھل جاتی ہے۔

یہ فلسفہ صرف ہیگل کی جدلیات تک محدود نہیں بلکہ فرانز فینن (Frantz Fanon) کے نظریۂ آزادی سے بھی جڑا ہے۔ فینن کے مطابق، استعماری نظام محکوم کے ذہن میں یہ احساس پیدا کرتا ہے کہ اس کی قربانی بے معنی ہے، ایک ذہنی زنجیر جسے وہ “Internalized Inferiority” کہتا ہے۔ “اسلمی فلسفہ” اسی داخلی غلامی پر فکری ضرب لگاتا ہے اور اعلان کرتا ہے کہ قربانی وہ لمحہ ہے جب محکوم اپنی غلامی کی نفی کر کے آزادی کی تخلیق کرتا ہے۔ اسی طرح “یومِ شہداء بلوچ” محض یاد نہیں بلکہ آزادی کے شعور (Consciousness of Freedom) کی تجدید ہے۔ اگر ہم اس دن کو محض تعزیتی یا یادگاری دن کے طور پر منائیں، تو یہ “اسلمی فلسفے” کی روح کے منافی ہوگا۔”اسلمی فلسفہ” ہمیں سکھاتا ہے کہ قربانی اختتام نہیں بلکہ تحریکی تسلسل (Continuing Process) ہے، کیونکہ ہر قربانی تحریک میں ایک نیا شعور (New Consciousness) پیدا کرتی ہے۔ یوں “یومِ شہداء بلوچ” ماضی کا جشن نہیں بلکہ مستقبل کی تخلیق کا لمحہ (Moment of Re-Creation) ہے۔

لہٰذا، اس دن کا مقصد صرف شہداء کی یاد نہیں بلکہ خود سے سوال کرنا ہے: کیا ہم اس قربانی کے شعور کے وارث ہیں؟ کیا ہم نے “اسلمی فلسفے” کو عمل میں بدلا ہے؟ کیا ہم نے اپنی کمزوریوں کو جدلیاتی طور پر نفی کر کے تحریک میں نئی توانائی پیدا کی ہے؟ “اسلمی فلسفہ” ہمیں یاد دلاتا ہے کہ آزادی کوئی جامد یاد نہیں، بلکہ مسلسل فکری و اخلاقی عمل (Continuous Ethical Praxis) ہے۔ یہی “یومِ شہداء بلوچ” کی روح ہے، جہاں موت “ضائع” نہیں ہوتی بلکہ زندگی کو نئی معنویت عطا کرتی ہے۔ یہی “روحِ اسلمی” ہے اور “فلسفہ اسلمی” بلوچ قومی تحریک کی زندہ میراث ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔