آتشین
تحریر: سفرخان بلوچ (آسگال )
دی بلوچستان پوسٹ
کسی بھی قوم، تحریک یا جدوجہد کا جائزہ لینے کے لیے صرف جذباتی بیانات کافی نہیں ہوتے، اس کے پیچھے موجود سیاسی حرکیات، اجتماعی نفسیات، تاریخی تناظر اور سماجی ارتقاء کو علمی بنیادوں پر سمجھنا ضروری ہوتا ہے۔
جب ہم گزشتہ دہائیوں پر نظر دوڑاتے ہیں تو ہمیں یہ حقیقت جاننی ضروری ہے کہ وقت دہائیاں صرف گزر نہیں رہے بلکہ اپنے ساتھ سیاسی، سماجی اور فکری تبدیلیاں بھی لا رہے ہیں۔ تاہم، اصل مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے، جب کوئی قومی جدوجہد وقت کے بدلتے تقاضوں کے مطابق خود کو ڈھالنے میں ناکام رہے۔
سائنس میں “Evolution” ایک ایسا عمل ہے جو بتدریج، مسلسل اور بے رکاوٹ تبدیلی سے عبارت ہے۔ یہ عمل، بہت آہستہ وقوع پذیر ہوتا ہے۔ قدرتی انتخاب کے اصول پر چلتا ہے۔
انسانی معاشرے اور سیاسی و سماجی تحریکیں بھی ایک طرح کے سوشیو پولیٹیکل ایولیوشن سے گزرتی ہیں۔ مگر یہاں ایک فرق ہے، تحریکیں حیاتیاتی ارتقاء کی طرح ہزاروں سال نہیں لیتیں؛ وہ عقل، منصوبہ بندی اور حالات کے مطابق اپنی رفتار تیز یا سست کر سکتی ہیں۔
اگر ایک قوم یا تحریک ان عوامل کو نظر انداز کرے تو سیاسی ارتقاء رک جاتا ہے اور جدوجہد میں سست روی، تقسیم، فیصلہ سازی میں الجھن جیسی بیماریاں پیدا ہونے لگتی ہیں۔
بعض اوقات تحریکیں اپنے اندر پائی جانے والی کمزوریوں کو چھپانے کے لیے Defence Mechanisms استعمال کرتی ہیں۔ تحریکی اداروں کے رہنما اپنی غلطیوں کو تسلیم نہ کرنے کے لیے منطق گھڑنے لگ جاتے ہیں۔ مثلاً “طویل جنگیں زیادہ فائدہ دیتی ہیں، ہم جتنی دیر لڑیں گے اتنے مضبوط ہوں گے۔” یہ ایک نفسیاتی جواز ہے، معروضی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتا ہے۔
جنگی طوالت کو جواز بنا کر فائدہ مند قرار دینا ایسے ہی ہے جیسے کہا جائے کہ کینسر کا مریض جتنا زیادہ بیمار ہوگا اتنا زیادہ اس کے صحت پانے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔ یہ سوچ نہ صرف سیاسی نادانی ہے بلکہ فکری بیماری کی علامت بھی ہے۔
کینسر وقت کے ساتھ جسم کو اندر سے کھوکھلا کر دیتا ہے، بالکل اسی طرح غیر ضروری طور پر کھینچی گئی جنگیں قوم کے سماجی ڈھانچے، ثقافتی ورثے، معیشت، اور اجتماعی نفسیات کو ناقابل تلافی نقصان سے دوچار کر دیتی ہیں۔
جو شخصیات اور اداروں کے سرکردہ لوگ یہ گمراہ کن دلیل دیتے ہیں کہ طویل جنگیں قوم کو مضبوط بناتی ہیں، وہ دراصل Pathological Denial یعنی بیماری کی ایک قسم، انکاری کیفیت کا شکار ہیں۔ حقیقت سے نظریں چرانے کے لیے ایسے لوگ Self-Deception (خودفریبی) اور Collective Rationalization (اجتماعی بہانہ سازی) کو دلیل کے پردے میں پیش کرتے ہیں۔ سچ یہ ہے کہ لمبی جنگیں قوموں کو طاقتور نہیں بناتیں، بلکہ انہیں تھکا دینے کا سبب بنتے ہیں۔ جنگوں کی طوالت جہاں دشمن کو نقصانات سے دوچار کرتا ہے، وہیں محکوم اقوام کو بھی ذہنی، معاشی اور نفسیاتی کینسر میں مبتلا کر دیتی ہیں۔ جو لوگ اس کو فائدہ مند بتاتے ہیں، وہ دراصل اپنی ناکامیوں کا بوجھ “وقت” پر ڈال کر اپنی نااہلی کو چھپانے کی کوشش کرتے ہیں اور اس سے بڑھ کر فکری دیوالیہ پن کی کوئی مثال نہیں دی جا سکتی ہے۔
1948میں پیدا ہونے والے نسل اب اپنی تیسری نسل کو بڑھاپے میں داخل ہوتا دیکھ رہے ہیں، اور 2000 کی دہائی میں پیدا ہونے والے نوجوان اپنی جوانی کی دہلیز پر حیران کھڑے ہیں جبکہ یہ نہ ختم ہونے والا ارتقائی عمل نامی سراب اب تک وہیں اٹکا ہوا ہے جہاں کئی دہائیاں پہلے تھا۔ دنیا بدل گئی، تہذیبیں بدل گئیں، سیاسی نظریات بدل گئے، مگر ہم آج بھی اسی ذہنی گرداب میں پھنسے ہیں جسے ہم نے اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے “طویل تاریخی جدوجہد” کا نام دے رکھا ہے۔
دنیا کے بیشمار قومی تحریکیں چند برسوں میں فیصلہ کن ثابت ہوئے ہیں، چین نے اپنی سیاسی گہرائی اور حکمت کے ساتھ مرحلہ وار ریاستی تشکیل کی، اور افغان طالبان کی مثال تو تازہ ہے کہ انہوں نے بھی اپنے جنگ کا آغاز کا اکیسیوی صدی میں شروع کی اور نیٹو جیسی قوت کا شکست دے کر اپنے ملک پر حاکمیت کررہے ہیں۔ طالبان کی حاکمیت سے چاہے ہم سیاسی اختلاف رکھیں لیکن کم از کم وہ یہ ثابت کر گئیں ہیں کہ جنگیں اور تحریکیں دہائیوں تک کھینچے بغیر نئی جنگی حکمت عملیوں سے کامیاب ہوسکتے ہیں۔
ہم نے ارتقائی عمل کا ایسا مسخ شدہ تصور اپنایا ہے کہ ہر ناکامی، ہر غلطی، ہر بدانتظامی، اور ہر نالائقی کو اسی کے پیچھے چھپا دیا جاتا ہے۔ یہ ارتقاء نہیں، مستقل جمود ہے جسے ہم نے فلسفے کا لبادہ پہنا دیا ہے۔ یہ وہی ذہنی دھوکہ ہے جس میں بیمار قومیں مبتلا ہو جاتی ہیں، جہاں لوگ شکست کو حکمت، کمزوری کو نظریہ، اور تاخیر کو مصلحت کا نام دے کر اپنے ہی زخم چاٹتے رہتے ہیں۔
جو لوگ دہائیاں گزرنے کے بعد بھی یہ کہتے ہیں کہ “وقت لگتا ہے” یا “تحریکیں لمبی چلتی ہیں”، وہ دراصل حقیقت سے بھاگنے کے سوا کچھ نہیں کر رہے۔ یہ دلیل نہیں، مایوسی، ذہنی کاہلی اور فکری بددیانتی کا لبادہ ہے۔ دنیا میں ایسے بھی تحریکیں رہے ہیں جو وحشیانہ طوالت کو برداشت نہ کرتے ہوئے ختم ہوچکے ہیں۔ طوالت کو صرف جواز دے کر نقصان ہی اٹھانا پڑے گا۔ ہمیں کئی دہائیاں پہلے جو کام کرنا چاہیے تھا، وہ آج بھی نہیں ہو پا رہا ہے۔ اور ہم اسے ارتقاء یا حکمت کہہ کر اپنے آپ کو دھوکا دیتے ہیں، جیسے سست رفتاری بھی کوئی کارنامہ ہو۔
جب وقت کا تقاضا تھا کہ سوچ بدلی جائے، طریقہ بدلا جائے، حکمت بدلی جائے۔ تب یہاں بیٹھے کچھ خود ساختہ دانشور یہ جاہلانہ دعویٰ کرتے تھے کہ طویل جنگیں قوموں کے لیے فائدہ مند ہوتی ہیں۔” یہ دلیل نہیں، حماقت کا مینار ہےاتنا اونچا کہ عقل کا سایہ بھی اس تک نہیں پہنچتا۔
آج اگر ہمیں چھوٹی سی کامیابی حاصل ہو ہم اس پر خوشی مناتے ہیں، اصل کامیابی وہ ہے جو وقت کے ساتھ ہم آہنگ ہو، جس میں وقت اور نتیجہ دونوں برابر ہوں۔ جب یہ توازن موجود نہ ہو، تو ہم حقیقت میں بہت پیچھے ہیں، اور عارضی خوشیاں ہمیں اپنی اصلی حیثیت سے دور لے جاتی ہیں۔
حقیقی خوشی اس وقت حاصل ہوتی ہے جب کامیابی اور وقت ایک دوسرے کے برابر ہوں، جب ہم محسوس کریں کہ ہماری محنت نے اپنے وقت کے مطابق وہ پھل دیا جو اس کی مستحق تھی۔ تب ہی کامیابی اپنی اصل عظمت میں جلوہ گر ہوتی ہے۔ اسی لمحے میں ہم اپنے دل کی گہرائیوں سے جشن مناتے ہیں، کیونکہ یہ خوشی صرف وقتی نہیں بلکہ حقیقی، معنی خیز اور مکمل ہوتی ہے۔
آج بھی صورتحال یہی ہے۔ خطے کے بدلتے حالات میں بلوچ قومی تحریک ایک اہم موڑ پر کھڑا ہے، مگر سرکردہ لوگ ایک دوسرے کے پاؤں کھینچنے میں مصروف ہیں۔ سیاسی ڈسکشن کے نام پر کردار کشی کا کام سرانجام دیا جاتا ہے اور چھوٹی چھوٹی وقتی کامیابیوں کو ایسے پیش کیا جاتا ہے جیسے دشمن کو زیر کر لیا ہو۔
اصل المیہ یہ نہیں کہ جدوجہد طویل ہے۔ اصل المیہ یہ ہے کہ دماغ چھوٹے ہیں، سوچ محدود ہے، اور عمل انتشار کا شکار ہے۔یہ جدوجہد کا ارتقاء نہیں، ایک ایسا تسلسل ہے، جس میں غلطیوں و خاموشی کو فلسفہ، کمزوریوں کو حکمت اور سست روی کو کامیابی کا نام دیا جاتا ہے تاکہ کوئی یہ نہ پوچھے کہ پچھلے پندرہ سالوں میں آخر کیا کیا گیا تھا؟ اپنی ذمہ داریوں کو نبھانے کے بجائے دوسرے لوگوں پر سوالات کیوں کیئے جارہے ہیں؟ دوسروں کو تنقید کے نام اپنی کمزوریوں کا چھپایا جارہا ہے؟
آج بھی یہی ذہنی افلاس برقرار ہے۔ اپنی نالائقی کو “ارتقائی عمل” کا نام دینا اور اپنی کوتاہیوں کو “وقت کا تقاضا” کہنا۔ ہمیں زخم دشمن کی چالاکی نے نہیں، ہماری جاہلیت نے دیے ہیں۔
ہم نے گزشتہ دہائیوں میں جو تاخیر کی، جو بہانے بنائے، اور جو فکری کمزوریوں کو چھپانے کی کوشش کی، وہ قوم کے مستقبل کے لیے زہر کا کام کر رہی ہے۔ چھوٹی کامیابیاں، وقتی فخر، اور اندرونی انتشار کسی بھی قوم کو نہیں بچاتےصرف حقیقت کا سامنا اور وقت کے تقاضوں کے مطابق حکمت عملی ہی بقا کی ضمانت ہے۔
یہ وقت کا تقاضا ہے کہ ہم اپنی ناکامیوں اور کوتاہیوں کو چھپانے کے بجائے تسلیم کریں، اپنی ذہنی جمود کو توڑیں، اور وقت کی رفتار سے خود کو ہم آہنگ کریں۔ ورنہ تاریخ کے صفحات پر ہمارا نام صرف ایک ایسی قوم کے طور پر لکھا جائے گا جو بہانوں، تاخیر اور خود فریبی کے جال میں پھنس کر اپنے مواقع کھو گئی۔
وقت رکتا نہیں، اور نہ ہی کوئی انتظار کرتا ہے۔ جو قوم اپنے زخموں کو بے نقاب کرنے اور حقیقی ترقی کے لیے قدم اٹھانے میں ناکام رہتی ہے، وہ اپنے ہی ہاتھوں اپنی تباہی کا معمار بن جاتی ہے۔












































