وہ جو آزادی لکھتا تھا، شہید فدائی بلال – لکمیر بلوچ

65

وہ جو آزادی لکھتا تھا، شہید فدائی بلال

تحریر: لکمیر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

پہاڑ خاموش کھڑے تھے، مگر اُس کے دل میں پرانی کہانیاں اور آزادی کی آوازیں چھپی ہوئی تھیں۔ پتھروں پر کبھی اُس نے خون سے “قربانی” لکھا، کبھی کوئلے سے “آزادی”۔ وقت نے بہت سے لفظ مٹا دیے، مگر ان کے معنی اور احساس ابھی بھی زندہ ہیں۔

بلوچستان کے پہاڑ صرف زمین نہیں، یہ قربانیوں اور جدوجہد کی یاد ہیں۔ ان کی خاموشی بھی ایک چیخ کی طرح ہے، اور ان کی تنہائی بھی ایک پیغام دیتی ہے کہ یہ سرزمین ابھی بھی آزادی کا انتظار کر رہی ہے۔

ایک نوجوان سپاہی جو آج شہید فدائی بلال عرف واحد سے جانا جاتا ہے، بچپن سے صرف ایک ہی لفظ بار بار سنتا تھا “بلوچستان”۔ اس کے لیے یہ لفظ صرف ایک جگہ کا نام نہیں تھا، بلکہ ایک مقصد تھا۔ اس نے ماں کی لوریوں میں بھی یہی سنا کہ اپنی سرزمین کے لیے جینا اور مرنا سب سے بڑی عبادت ہے۔ پہاڑوں کی گود میں پلتے ہوئے اسے محسوس ہوا کہ یہ مٹی عام مٹی نہیں، یہ شہیدوں کے لہو سے سرخ ہے۔

اس نے مسلح تحریک میں شامل ہونے سے پہلے کئی بار پتھروں پر “آزادی” لکھتا اور پھر مٹا دیتا۔ شاید اس لیے کہ اسے یقین نہیں ہوتا کہ آزادی ملے گی، یا اس لیے کہ وہ جانتا تھا کہ الفاظ سے زیادہ عمل ضروری ہیں۔ مگر ہر بار جب لفظ مٹایا جاتا، اُس کے دل میں ایک چبھن پیدا ہوتی، اور وہ سوچتا کہ ایک دن ایسا آئے گا جب یہ لفظ کوئی نہیں مٹا سکے گا، شاید یہی احساس تھا جس نے اسے عمل کی راہ اختیار کی اور 2019 میں بی ایل اے کا عصہ بناہ۔

وہ ہمیشہ کہتا تھا تحریکیں اس وقت کامیاب ہوتی ہیں جب وہ اپنی کمزوریاں تسلیم کرتی ہیں اور دوسروں کی اچھی بات مانتی ہیں۔ اگر صرف اپنی رائے کو صحیح سمجھا جائے اور غلطیوں کو چھپایا جائے تو سفر ادھورا رہتا ہے، اس سفر کو صرف اور صرف قربانیاں دے کر پورا کیا جاہ سکتا ہے۔

شہید فدائی بلال سمجھتا تھا کہ بندوق اٹھانا آسان ہے، مگر اس کو صحیح مقصد کے لیے استعمال کرنا سب سے ضروری ہے۔

سال گزرتے گئے۔ سخت سردیوں کی راتیں، گرمیوں کی تیز دھوپ، بھوک اور پیاس، سب برداشت کرنے پڑے۔ مگر وہ گوریلا جنگجو پیچھے نہ ہٹا۔ مہینے گزرے، پھر سال، مگر آزادی قریب نہ آئی۔ اُس کے دل میں یہ سوچ مزید مضبوط ہوتی گئی کہ اگر آزادی کی خواہش ختم ہو جائے تو جینا بے فائدہ ہے۔

قربانی کا مطلب صرف جان دینا نہیں، بلکہ آرام، سکون، گھر کا پیار اور اپنے خواب سب چھوڑ دینا ہے۔ یہ ایک آگ ہے جو دل میں جلتی رہتی ہے اور تب تک نہیں بجھتی جب تک مقصد پورا نہ ہو جائے۔

جب اُس نے پہاڑوں قدم رکھا تو اس نے قسم کھائی تھی کہ آخری سانس تک لڑے گا۔ اس کے دل میں آزادی ایک محبوب کی طرح تھی۔ پہاڑ بھی اس کے قدم پہچانتے تھے۔ وہ جانتا تھا کہ جنگ صرف دشمن کے خلاف نہیں، بلکہ ان سوچوں کے خلاف بھی ہے جو قوم کو تقسیم کرتی ہیں۔ اس نے دیکھا کہ کبھی کبھی قیادت کی انا، طاقت کی خواہش اور اختلافات تحریک کو کمزور کر دیتے ہیں۔ وہ جانتا تھا کہ اگر اندر کے دشمن کو شکست نہ دی گئی تو باہر کا دشمن ہمیشہ جیتے گا۔

رات کے آسمان پر ستارے اسے اپنے شہید ساتھیوں کی آنکھوں جیسے لگتے۔ اسے یاد آتا کہ کس نے زخمی ہونے کے باوجود ہتھیار نہیں چھوڑا، اور کس نے دشمن کے ہاتھ نہ آنے کے لیے اپنی جان دے دی۔ یہ سب کہانیاں اس کے دل میں ہمت بڑھاتی تھیں۔

اس نے سیکھا کہ قومی ذمہ داری ایک وعدہ ہے، اور ہر وہ سپاہی جو بندوق اٹھاتا ہے، وہ اپنی قوم کی عزت، شہیدوں کا قرض اور آنے والی نسلوں کا مستقبل اپنے کندھوں پر اٹھاتا ہے۔ یہ بوجھ بھاری ضرور ہے، مگر ایمان والا اس کو اعزاز سمجھ کر اٹھاتا ہے۔

اس کے لیے آزادی کا مطلب صرف حکومت بدلنا نہیں تھا، بلکہ ایک ایسا ملک بنانا تھا جہاں بچے سکول جا سکیں، ماں بیٹے کو یہ یقین دے کر رخصت کرے کہ وہ شام تک واپس آئے گا، اور پہاڑوں میں گولیوں کی آواز کے بجائے خوشی کے گیت گونجیں۔

وہ جانتا تھا کہ وہ خود منزل نہ دیکھ سکے گا، مگر اگر آج ہمت چھوڑ دے تو کل کوئی اور نوجوان خواب دیکھنے سے ڈر جائے گا۔

اس نے فیصلہ کیا کہ چاہے تھکن اور زخم اسے ختم کر دیں، وہ آزادی کے لفظ کو پتھروں، دلوں اور تاریخ میں ہمیشہ کے لیے لکھ دے گا اور وہ 3 فروری 2022 میں اوپریشن گَنجل کا حصہ بنا۔

پہاڑوں کی ٹھنڈی راتوں میں وہ بندوق کے قریب سو جاتا اور دعا کرتا کہ اس کی قربانی ضائع نہ ہو۔ وہ سمجھتا تھا کہ اصل جنگ قوم کو جگانا ہے، کیونکہ سوئی ہوئی قوم کے لیے آزادی بھی قید جیسی ہوتی ہے۔

اس کی کہانی شاید کسی کتاب میں نہ لکھی جائے، اور اس کا نام شاید کسی یادگار پر نہ ہو، مگر وہ جانتا تھا کہ اس نے اپنا فرض ادا کیا۔ اور یہی اس کی سب سے بڑی جیت تھی۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔