کتاب دوستی کے نعروں میں زوار کتابجاہ کی بزور طاقت بندش – زاویان بلوچ

14

کتاب دوستی کے نعروں میں زوار کتابجاہ کی بزور طاقت بندش

تحریر: زاویان بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچستان کی سرزمین پر علم کی شمع جلانا ہمیشہ سے خطرناک رہا ہے۔ جہاں ایک طرف ریاستی ادارے “کتاب دوستی” کے نعرے لگا کر فلگ شپ پروگرام چلاتے ہیں، وہیں دوسری طرف وہی ریاست کتابوں کو دشمن سمجھ کر ان پر حملہ آور ہو جاتی ہے۔ مئی 2025 میں جبری طور پر لاپتہ ہونے والے براہوئی ادب کے ممتاز اسکالر، ناشر اور سیاسی کارکن غنی بلوچ کی “زوار بک شاپ” جو کوئٹہ کا ایک مشہور ثقافتی مرکز تھی اب ڈپٹی کمشنر کوئٹہ نے سیل کر دیا ہے۔ یہ اقدام نہ صرف ایک کتابوں کی دکان کا خاتمہ ہے، بلکہ بلوچ قوم کی آواز کو خاموش کرنے کی ایک اور کوشش ہے۔ یہ واقعہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ پاکستان میں کتابیں کبھی محض کاغذ اور سیاہی نہیں ہوتیں؛ وہ مزاحمت کی علامت ہیں، اور ان کی دشمنی ریاست کی کمزوری کا آئینہ ہے۔

غنی بلوچ کوئٹہ کی دانشور کمیونٹی کا ایک ستون تھے۔ براہوئی زبان اور ادب کے ماہر، وہ بلوچستان کی تاریخ، ثقافت اور سیاسی جدوجہد پر لکھی گئی کتابوں کے ناشر اور فروخت کنندہ تھے۔ ان کی زوار بک شاپ نہ صرف بلوچستان کی قدیم دستاویزات اور جدید تحریروں کا خزانہ تھی، بلکہ طلبہ، دانشوروں اور کارکنوں کی ایک محفوظ جگہ بھی، جہاں بلوچ قوم کی آواز بلند ہوتی تھی۔ مئی 2025 میں، جب وہ کوئٹہ سے کراچی جاتے ہوئے نکلے، تو خفیہ اداروں نے انہیں اغوا کر لیا۔ تین ماہ گزر جانے کے باوجود، نہ تو کوئی ایف آئی آر درج ہوئی، نہ کوئی الزام عائد ہوا، اور نہ ہی عدالت میں پیش کیا گیا۔

غنی کی گمشدگی بلوچستان کی وسیع تر کہانی کا حصہ ہے، جہاں ہزاروں بلوچ طلبہ، صحافی، کارکن ریاستی جبر کا شکار ہو چکے ہیں۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے جب کتابوں پر حملہ ہوا۔ 2014 میں گودار میں پولیس نے ال بدر بک شاپ پر چھاپہ مارا اور بلوچستان کی تاریخ پر کتابیں ضبط کر لیں، جبکہ بیچنے والے کو گرفتار کر لیا گیا۔ آج غنی کی بک شاپ کا سیل ہونا اسی تسلسل کا حصہ ہے: جہاں علم کو دبایا جائے، وہاں مزاحمت کو توڑا جائے۔

3 اکتوبر 2025 کو، ڈپٹی کمشنر کوئٹہ کی ہدایت پر انتظامیہ نے زوار بک شاپ پر چھاپہ مارا اور جبری لاپتہ اسکالر غنی بلوچ کی بک شاپ کو سیل کر دیا۔ یہ دکان غنی کے خاندان کی ملکیت تھی، جو بلوچستان کی ثقافتی ورثے کو محفوظ رکھنے کا ذریعہ تھی۔ یہاں براہوئی، بلوچی اور اردو ادب کی نایاب کتابیں دستیاب تھیں۔

بلوچستان میں تعلیم پر سرمایہ کاری کی بجائے فوجی اخراجات کو ترجیح دی جاتی ہے، جیسا کہ بی بی سی کی رپورٹ میں بیان کیا گیا ہے کہ “حکومت سکولوں اور کالجوں سے زیادہ فوجیوں پر خرچ کرتی ہے۔ کتابیں جب بلوچ آواز بن جائیں، تو انہیں چپ کر دیا جاتا ہے۔”

کتاب کی دشمنی کوئی نئی بات نہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ بلوچستان کی جدوجہد کو دبانے کے لیے تعلیم اور ثقافت کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ آج جب بلوچستان گیس، کوئلہ، تانبا اور سونے کے ذخائر کا مالک ہے، مگر اس کی عوام غربت اور جبر میں جی رہی ہے، تو کتابیں وہ ہتھیار ہیں جو خاموشی سے مزاحمت کرتی ہیں۔ غنی بلوچ جیسی شخصیات انہیں زندہ رکھتی ہیں، اور ریاست انہیں مٹانے کی کوشش کرتی ہے۔

پہلے غنی بلوچ کو لاپتہ کیا، اب ان کی بک شاپ کو سیل کر دیا۔ علم کی شمع نہ بجھے گی۔ غنی بلوچ کی بک شاپ کا سیل ہونا ایک خسارہ ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں اور بلوچ کارکن مطالبہ کر رہے ہیں کہ غنی بلوچ کو فوری رہا کیا جائے اور بک شاپ دوبارہ کھول دی جائے۔ کتاب کی دشمنی، انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ بلوچستان کی شمعِ علم کو بجھانے کی کوشش ناکام ہوگی، کیونکہ جہاں اندھیرا ہو، وہاں علم کی روشنی ضرور پھیلے گی۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔