جمعرات کی شب افغانستان کے دارالحکومت کابل میں پاکستانی جیٹ طیاروں نے بمباری کی۔ دھماکوں کے حوالے سے طالبان انتطامیہ نے دعویٰ کیا کہ کوئی جانی نقصان نہیں ہوا، تاہم سوشل میڈیا پر تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے سربراہ نور ولی محسود کی موت کی افواہیں گردش کرتی رہیں۔
افغان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایکس پر کہا: ’واقعے کی تحقیقات جاری ہیں، لیکن ابھی تک کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں ملی ہے اور سب کچھ ٹھیک ہے۔‘
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق پہلا زوردار دھماکا مقامی وقت کے مطابق رات 9:50 کے قریب ہوا جبکہ اس کے چند منٹ بعد ہی دوسرے دھماکے کی آواز سنی گئی۔
دوسری جانب سماجی رابطوں کے ویب سائٹ پر پاکستانی فوج سے منسلک اکاؤنٹس پر دعویٰ کیا گیا کہ کابل میں دھماکے کے نتیجے میں تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے سربراہ مفتی نور ولی محسود مارے گئے۔
حکومت پاکستان کی جانب سے کسی حملے کی سرکاری تصدیق بھی نہیں کی گئی ہے۔ ماضی میں بھی پاکستان کے مبینہ حملوں پر اسلام آباد نے لب کشائی نہیں کی تھی۔
افغانستان کے سینیئر صحافی بلال سروری نے ایکس پر لکھا: ’بتایا جا رہا ہے کہ کابل میں بمباری سے ٹی ٹی پی کے اہم رہنماؤں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔‘
بلال سروری کے مطابق یہ بمباری ایسے وقت میں کی گئی ہے جب افغانستان کے عبوری وزیر خارجہ مولانا امیر خان متقی انڈیا کے دورے پر ہیں۔
جمعرات اور جمعے کی درمیانے رات 12 بجے کے بعد سے سوشل میڈیا پر ایک غیر مصدقہ آڈیو پیغام بھی گردش کر رہا ہے، جس میں ایک شخص یہ کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ وہ (مبینہ طور پر) مفتی نور ولی محسود ہیں اور آج 9 اکتوبر کو وہ زندہ ہیں، پاکستان کے قبائلی اضلاع میں موجود ہیں اور ان کے مارے جانے کی خبروں میں کوئی صداقت نہیں ہے۔
د پاکستاني طالبانو مشر مفتي نورولي محسود: په ميډيا کېدونکي تبليغات ناسم او دروغ دي، زه په خپله قبايلي خاوره (پښتونخوا) کې يم او روغ رمټ يم
هندوکش غږ د پاکستاني طالبانو د مشر مفتي نورولي محسود هغه غږيز کليپ ترلاسه کړی، چې نوموړی پکې په ده د بريد په اړه کېدونکې اوازې ردوي او وايي،… pic.twitter.com/KgsSAwbq4L
— هندوکش غږ (@Hindukush_0) October 9, 2025
آڈیو پیغام کی تصدیق ٹی ٹی پی کی جانب سے بھی ابھی تک نہیں ہوئی ہے اور نہ مفتی نور ولی محسود کے بارے میں ٹی ٹی پی نے کوئی بیان جاری کیا ہے۔
سوشل میڈیا پر کئی لوگوں نے دھماکوں کی آوازیں سننے اور ڈرون دیکھنے کی اطلاعات بھی دیں۔
اے ایف پی کے ایک صحافی نے دیکھا کہ دارالحکومت کی گلیوں میں متعدد سکیورٹی فورسز الرٹ تھیں اور کاروں کی تلاشی لی جا رہی تھی۔ ۔ کئی محلوں میں موبائل فون سروس بھی بند رہی۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز نے بتایا کہ پہلا دھماکا عبدالحق سکوائر کے علاقے میں کئی وزارتوں اور قومی انٹیلی جنس ایجنسی کے دفاتر کے قریب ہوا، جبکہ کابل کے رہائشیوں نے شہر کے شہر نو محلے میں ایک اور دھماکے کی آواز بھی سنی، جس کی تصدیق نہیں کی جا سکی۔
امریکہ کی افغانستان میں سابق سفیر زلمی خلیل زاد نے بھی اپنے ایکس اکاؤنٹ پر جاری ایک پیغام میں سوالیہ انداز میں بتایا ہے کہ کیا پاکستان نے کابل میں بمباری کی ہے جس میں کہا جا رہا ہے ٹی ٹی پی کے مفتی نور ولی کو مبینہ طور پر مار دیا ہے۔
پیغام میں مزید لکھا گیا ہے کہ ابتدائی معلومات شاید غلط ہوں لیکن جنگ کی فضا قائم ہوگئی ہے۔
مفتی نور ولی کی دھماکے میں موت کی ابھی تک کابل یا پاکستان حکومت ٹی ٹی پی نے تصدیق نہیں کی ہے اور آزاد ذرائع سے بھی ابھی تک اس کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔
ٹی ٹی پی کے اہم لیڈر کا جان سے مارا جانا اور کابل پر فضائی حملوں سے متعلق افواہیں حال ہی میں پاکستان میں پے در پے پونے والے فوج پر حملوں کے تناظر میں پھیلنے کا امکان ہے۔
بدھ کو پاکستان کے قبائلی ضلع اورکزئی میں عسکریت پسندوں کی فائرنگ سے دو افسران سمیت 11 فوجی اہلکار جان سے گئے، جبکہ جمعرات کو جعفر ایکسپریس پر کچھ ہی عرصے میں تیسرا حملہ ہوا۔
گذشتہ کچھ سالوں سے پاکستان کے صوبوں خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں پاکستانی فورسز پر حملوں میں تیزی آئی ہے، جو اسلام آباد کے مطابق تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور بلوچ عسکریت پسند تنظیم بی ایل اے کے کام ہیں، جبکہ مذکورہ تنظیمیں کئی واقعات کی ذمہ داری بھی قبول کر چکی ہیں۔
پاکستان الزام لگاتا ہے کہ ان تنظیموں کے رہنما افغانستان میں موجود ہیں اور اس سلسلے میں کابل سے ان عسکریت پسند گروہوں اور ان کے رہنماؤں کے خلاف کارروائیوں کا مطالبہ بھی کیا جا چکا ہے۔
تاہم کابل میں افغان طالبان انتظامیہ اسلام آباد کی جانب سے ان الزامات کی تردید کرتی رہی ہے۔