بلوچستان کے ضلع پنجگور کے علاقے پنچی میں ایک نوجوان بلوچ لڑکی زیرِ علاج حالت میں انتقال کر گئی ہے، جس کے بارے میں مقامی ذرائع کا دعویٰ ہے کہ وہ پاکستانی فورسز کی حراست کے دوران مبینہ طور پر تشدد اور جنسی زیادتی کا نشانہ بنی تھی۔
بتایا جاتا ہے کہ دونوں خواتین کو مبینہ طور پر تشدد کے بعد ہسپتال منتقل کیا گیا، جہاں بیٹی زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گئی۔
مقامی صحافیوں اور سماجی کارکنوں کے مطابق، لڑکی جسکی شناخت نازیہ اور ان کی والدہ پری کے نام سے ہوئی ہے جو ماشکیل کے رہائشی ہیں، اور مزدوری کے سلسلے میں خاندان سمیت پنجگور آئی تھیں۔
اس واقعے کے حوالے سے سرکاری سطح پر تاحال کوئی مؤقف سامنے نہیں آیا۔ دی بلوچستان پوسٹ نے اس حوالے سے مقامی انتظامیہ اور اسپتال انتظامیہ سے رابطہ کرنے کی کوشش کی ہے، تاہم کوئی باضابطہ ردِعمل موصول نہیں ہوا۔
خیال رہے کہ بلوچستان میں پاکستانی فورسز کی کارروائیاں طویل عرصے سے جاری ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں بارہا اس بات پر تشویش کا اظہار کرتی رہی ہیں۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی نے پنجگور واقعہ کو بلوچ قومی شناخت اور ننگ و ناموس پہ حملے کی کڑیاں مظبوط کرنے کی تسلسل قرار دیا ہے۔
بی وائی سی پنجگور کے جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ نازیہ شفیع کی شہادت باور کراتی ہے کہ ریاست اور اسکے کرائے کے قاتل چادر و چاردیواری کی پامالی سے گزر کر بلوچ خواتین کی زندگی پہ حملہ آور ہیں بلوچ قوم میں خاموشی کی گنجائش قومی ننگ و ناموس کے اجتماعی خودکشی کے مترادف ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ مورخہ 28 اکتوبر 2025 کے رات کو پَنجگُور کے علاقہ پنچی میں ریاستی فوج اور اسکے کرائے کےقاتلوں نے شفیع محمد کے گھر میں گھس کر اسکے خاندان کو تشدد کا نشانہ بنایا اور شفیع محمد کی بیوی اور بیٹی کو بزورِ بندوق اپنے ساتھ جبراََ لے گئے۔ اگلی صبح نازیہ شفیع کو نیم مردہ حالت میں تشدد و بد فعلی کا نشانہ بنا کر سیول ہسپتال پَنجگُور کے سامنے چھوڑ دی گئی تا ہم کچھ لمحے بعد نازیہ شفیع زخموں کے تاب نہ لاتے ہوئے چل بسیں۔


















































