پاکستان اور افغانستان کے درمیان جاری سرحدی جھڑپوں کے بعد دونوں ممالک نے 48 گھنٹوں کے لیے عارضی جنگ بندی پر اتفاق کیا ہے۔
پاکستانی وزارتِ خارجہ اور افغان حکومت کے ترجمان کے مطابق جنگ بندی کے اس فیصلے کے بعد دونوں جانب سے حملوں کا سلسلہ روک دیا گیا ہے۔
پاکستانی کی وزارتِ خارجہ کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ حکومتِ پاکستان اور افغان طالبان انتظامیہ کے درمیان 48 گھنٹے کی عارضی جنگ بندی پر اتفاق ہو گیا ہے جو آج شام 6 بجے سے نافذ العمل ہوگی۔
بیان کے مطابق جنگ بندی کے دوران توقع کی جا رہی ہے کہ دونوں ممالک اس پیچیدہ مگر قابلِ حل مسئلے کے پُرامن اور تعمیری حل کے لیے مذاکرات میں شریک ہوں گے۔
ادھر طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اعلان کیا ہے کہ پاکستانی فریق کی درخواست اور اصرار پر دونوں ممالک کے درمیان جنگ بندی آج شام 5:30 بجے سے مؤثر ہوگی۔
انہوں نے بتایا کہ امارتِ اسلامیہ نے اپنی تمام افواج کو شام 5:30 بجے سے جنگ بندی کی مکمل پابندی کرنے کی ہدایت جاری کر دی ہے، بشرطیکہ کوئی بھی فریق جارحیت کا ارتکاب نہ کرے۔
واضح رہے کہ آج صبح شروع ہونے والی جھڑپوں میں پاکستانی فورسز کی جانب سے افغانستان کے علاقے اسپین بولدک اور کابل میں فضائی کارروائیوں کے دوران طالبان کو نقصان پہنچانے کا دعویٰ کیا گیا ہے، جبکہ طالبان کی جانب سے بھی اس دوران سرحدی جھڑپوں میں متعدد پاکستانی اہلکاروں کو ہلاک کرنے اور گرفتار کرنے کے دعوے سامنے آئے ہیں۔
افغان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اس سے قبل افغان میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان کی فضائی بمباری میں عام افغان شہری نشانہ بنے ہیں، ردعمل میں چمن بارڈر اور دیگر سرحدی مقامات پر افغان فورسز نے پاکستانی چوکیوں کو نشانہ بنایا اور ان کے ٹینک و دیگر سازوسامان قبضے میں لے لیے۔
مزید برآں افغان میڈیا نے پاکستانی حملوں میں اب تک درجنوں عام شہریوں کی ہلاکتوں کی تصدیق کی ہے جن میں ایک صحافی اور سات مزدور شامل ہیں، اسی دوران پاکستان نے چمن کے سرحدی علاقوں میں مقامی آبادی کو علاقہ خالی کرنے کے احکامات جاری کیے ہیں۔
پاکستانی میڈیا کے مطابق چمن بارڈر پر جھڑپوں کے بعد دونوں ممالک کے درمیان قائم بابِ دوستی گیٹ مکمل طور پر تباہ ہوگیا ہے جبکہ افغان فورسز کی فائرنگ سے ایک بچی جانبحق ہوئی ہے۔
دریں اثناء پاکستان نے افغانستان کے مختلف علاقوں بشمول دارالحکومت میں فضائی بمباری کے ذریعے طالبان کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کا دعویٰ کیا ہے، تاہم افغان حکام کی جانب سے ان دعوؤں کی تاحال نہ تصدیق ہوئی ہے اور نہ تردید۔