ہماری علاقے میں ایک فوتگی ہوا ہم وہاں فاتحہ کے لئے گئے جب واپس اپنے گھر لوٹے تو پاکستانی فوج کے ہیلی کاپٹروں نے بمباری کرکے چار بچوں سمیت دیگر دو افراد کو شہید کردیا ۔ چار بچوں کی لاشیں سامنے رکھ کر زہری کے رہائشی نے حکومت سے سوال کیا کہ ان معصوم بچوں نے ملک اور حکومت کا کیا بگاڑا تھا۔ یہ بچے کونسے پہاڑوں میں تھے ۔
انہوں نے کہاکہ ہمارے گھر تباہ ہوگئے اور حکومت ان معصوم بچوں کی موت پر کہ رہا ہے کہ میں نے دہشت گرد مارے ہیں ۔
خضدار زہری سے موصولہ ویڈیو بیانات کے مطابق پاکستانی فورسز خضدار کے پہاڑی علاقے مولہ میں بمباری کے دوران ایک ہی خاندان کے چار بچوں سمیت چھ افراد قتل دو افراد زخمی ہو گئے ہیں۔
جانبحق افراد میں منظور احمد ولد عبدالحکیم و اس کے دو بچے اور ایک بھتیجا، بی بی رحیمہ اس کا ایک بچہ شامل ہیں۔ جبکہ زخمیوں میں بی بی رحیمہ کی ایک بیٹی اور ایک بیٹا بھی شامل ہیں۔
یاد رہے کہ زہری میں رواں مہینے پاکستانی فورسز کی جانب سے یہ تیسرا موقع ہے جب ڈورن اور فضائی حملوں کے زریعے مقامی افراد کو نشانہ بنایا گیا ہے، اس سے قبل پاکستانی فورسز نے 15 ستمبر کو فضائی حملے میں ایک گھر کو نشانہ بنایا تھا جس میں پندرانی قبیلے کے تین افراد جانبحق ہوئیں جبکہ دو روز بعد 17 ستمبر کو ایک ڈرون حملے میں دو خواتین سمیت چار افراد جانبحق اور ایک بچے سمیت پانچ افراد زخمی ہوگئے تھے۔
تراسانی کے قریب پاکستانی ڈرون حملے کا نشانہ بننے والوں میں 40 سالہ بی بی آمنہ زوجہ ثناء اللہ، 41 سالہ لال بی بی زوجہ علی اکبر، اور 30 سالہ محمد حسن ولد محمد، جبکہ زخمیوں میں 45 سالہ ثناء اللہ ولد غلام رسول، علی اکبر ولد عبدالحکیم، 38 سالہ عبدالنبی ولد محمد یعقوب، 4 سالہ عمیر احمد ولد غلام رسول اور 65 سالہ مولا بخش ولد منڈاؤ شامل ہیں۔
خیال رہے کہ زہری میں کرفیو کے باعث مقامی بازار گذشتہ کئی روز سے بند ہے جبکہ علاقے میں پاکستانی فورسز فوجی ٹینکوں کے ہمراہ موجود ہیں اور زہری میں قائم واحد اسپتال بھی پاکستانی فورسز کے قبضے میں ہے جس کے باعث وقت پر طبعی امداد نا ملنے پر حاملہ خاتون جان کی بازی ہار گئی تھی۔
بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ اور بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ اختر مینگل نے کہا ہے کہ زہری میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ صرف لاپرواہی نہیں بلکہ ظلم ہے۔ دو مہینوں سے سڑک کی بندش نے خوراک، دوائی اور روزگار کا راستہ بند کر دیا ہے۔
انہوں نے کہاکہ بچے تکلیف میں ہیں، کپاس کی فصل تباہ ہو چکی ہے اور خاندان مایوس ہیں۔ کب تک معصوم بلوچوں کی زندگیاں طاقت کی سیاست کی بھینٹ چڑھتی رہیں گی؟
زہری صورتحال پر بلوچ سیاسی اور انسانی حقوق کی تنظمیں مطالبہ کررہے ہیں کہ مقامی لوگوں کا محاصرہ ختم کیا جائے تاکہ مزید انسانی جانوں کا ضیاع نہ ہو ۔
زہری سے آمد اطلاع کے مطابق پورا ٹاؤن مکمل فوج کے محاصرے میں اور کرفیو نافذ ہے ، جسکی وجہ سے مزید انسانی جانوں کو شدید خطرات لاحق ہیں ۔
حکومت اور فوج کا موقف ہے کہ زہری مسلح آزادی پسند تنظمیوں کے خلاف کاروائیاں جاری ہیں تاہم زہری میں ابتک ڈرون اور جیٹ طیاروں کی بمباری سے شہریوں کی ہلاکتیں رپورٹ ہوئے ہیں ۔
دوسری جانب بلوچ یکجہتی کمیٹی ، بلوچ سوشل میڈیا ایکٹوٹس اور دیگر تنظیمیں زہری میں جاری انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر عالمی اداروں سے مداخلت کی اپیل کررہے ہیں ۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کے مطابق زہری میں صورتحال ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید سنگین ہوتی جا رہی ہے۔ مقامی آبادی پر اجتماعی سزا، اندھی کارروائیاں، اور انسانی حقوق کی پامالیاں بین الاقوامی انسانی و اخلاقی قوانین کی صریح خلاف ورزی ہیں، اگر موجودہ آپریشنز فوری طور پر بند نہ کیے گئے تو زہری میں ایک بڑا انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے، کیونکہ وہاں کے عام شہری مسلسل فضائی حملوں اور محاصرے کی زد میں ہیں۔
بی این پی نے مطالبہ کیا کہ حکومت اور انتظامیہ زہری کے عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرے اور املاک کے انہدام کا سلسلہ فوراً روکے، تاکہ لوگ بلا خوف و خطر اپنی روزمرہ ضروریات پوری کرسکیں۔