جمعرات کو پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کا ایک بیان میں دعویٰ کیا کہ افغانستان سے شدت پسندوں کا ایک گروہ پاکستان میں داخل ہونے کی کوشش کر رہا تھا اور اس دوران فورسز کی فائرنگ سے ٹی ٹی پی کمانڈر قاری امجد عرف مزاحم سمیت چار شدت پسند ہلاک ہو گئے۔
پاکستانی فوج کا کہنا ہے کہ قاری امجد کالعدم ٹی ٹی پی کے سربراہ نور ولی محسود کے نائب اور رہبری شوریٰ کے سربراہ تھے۔
پاکستان حکومت نے ان کے سر کی قیمت 50 لاکھ مقرر کی تھی۔
تحریکِ طالبان پاکستان اپنے سابق نائب امیر مفتی مزاحم اور ان کے ایک ساتھی کے مارے جانے کی تصدیق کردی ہے۔
ٹی ٹی پی کے ترجمان محمد خراسانی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ تحریکِ طالبان پاکستان کے سابق نائب امیر “محترم مفتی مزاحم اور انکے دست راست کمانڈر یاسر کی شہادت پر فخر کرتے ہیں۔”
انہوں نے مزید کہا کہ رائیل انڈین آرمی آج جو رنگ تحریک طالبان پاکستان کے عظیم سپوت کی شہادت کو دینے کی مذموم کوشش کرتی ہے، گویا مفتی صاحب کو بارڈر کراس کرتے ہوئے ایک مقابلہ میں شہید کر دیا گیا ہے، یہ سراسر جھوٹ اور فریب پر مبنی دعویٰ ہے، یہ بزدل فوج مفتی صاحب اور انکے چابک دستے کا سامنا کرنے سے کوسوں دور رہا کرتے تھے بلکہ کئی بار دشمن کو پیٹھ پھیر کر بھاگنا پڑا ہے۔
ترجمان نے کہا کہ اصل بات یہ ہے کہ یہ عظیم کمانڈر امیر محترم مفتی ابو منصور عاصم حفظہ اللہ (جو خود بھی بحمداللہ جنوبی زون کے ولایات کی براہ راست نگرانی میں مصروف ہیں) کی ہدایات کے مطابق پہلے ہی سے شمالی زون کی اٹھارہ ولایات کا جائزہ لینے اور وہاں کے کمانڈروں کو تحریکِ طالبان پاکستان کے لوائح، اصول اور جنگی تکنیک وغیرہ سمجھانے کی خاطر سرگرمیوں میں مصروف تھے، مفتی مزاحم صاحب رحمہ اللّٰہ نے بحمد اللّٰہ دشمنان اسلام کے مقابلہ میں مزاحمت کا پورا حق ادا کرلیا، اور ولایت باجوڑ سے ولایت دیر کی جانب ایک اہم مشن کے حوالے سفر کے دوران مفتی مزاحم صاحب اور کمانڈر یاسر صاحب نے اسی ولایت میں ایک غدارانہ کاروائی میں شہادت کا اعلیٰ مقام حاصل کرلیا۔
قاری امجد عرف مزاحم کون تھے؟
قاری امجد کا شمار مسلح تنظیم کے بااثر کمانڈروں میں ہوتا تھا اور انہیں امریکہ نے بھی دسمبر 2022 میں عالمی دہشتگردوں کی فہرست میں شامل کیا تھا۔
اس وقت امریکی محکمہ خارجہ نے کہا تھا کہ قاری امجد کو ٹی ٹی پی میں بیرون ملک، قبائلی علاقوں اور خیبر پختونخوا میں آپریشنز کی ذمہ داری سونپی گئی۔
قاری امجد کا آبائی تعلق خیبر پختونخوا کے ضلع لوئر دیر سے تھا اور پاکستانی فوج اور امریکی محکمہ خارجہ کے مطابق وہ افغانستان میں موجود تھے۔
سینیئر صحافی اور تجزیہ کار مشتاق یوسفزئی نے ماضی میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگرچہ قاری امجد طالبان میں متحرک ہیں مگر وہ اس گروہ میں کوئی زیادہ مقبول شخصیت نہیں۔
’انھیں ٹی ٹی پی کا نائب امیر تعینات کیا گیا اور اس کے ایک بڑی وجہ ان کا مالاکنڈ ڈویژن سے تعلق بتایا گیا۔‘
ماضی میں دیر سے مقامی لوگوں نے میڈیا کو بتایا تھا کہ قاری امجد نے ابتدائی تعلیم اپنے علاقے میں ہی حاصل کی تھی اور پھر دیر میں جندول کے ایک مدرسے میں دینی تعلیم کے لیے داخل ہوئے تھے۔ اُن کے والد سرکاری سکول میں استاد تھے۔
نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک اہلکار نے بتایا تھا کہ اپنی جوانی میں یعنی سال 2007-08 میں قاری امجد اس وقت طالبان کے ساتھ شامل ہو گئے تھے جب اس علاقے میں شدت پسندی عروج پر تھی اور تنظیم میں شمولیت کے بعد انھوں نے شدت پسندی کی کارروائیوں میں اہم کردار ادا کیا تھا۔
تاہم اس علاقے میں فورسز کے آپریشن کی وجہ سے قاری امجد سنہ 2010 میں افغانستان چلے گئے تھے اور پھر ایسی اطلاعات بھی موصول ہوئی تھیں کہ چند برس بعد قاری امجد واپس پاکستان اپنے علاقے میں آئے تھے تاہم کارروائی کے خوف سے وہ جلد ہی واپس افغانستان کی جانب چلے گئے تھے۔
ایک ذریعے نے بتایا کہ قاری امجد کے ایک بھائی فورسز کے ساتھ جھڑپ میں مارے گئے تھے تاہم اس کی باقاعدہ تصدیق نہیں کرسکا۔













































