میرے شبیر جان کے نام – سمُّل

74

میرے شبیر جان کے نام

میرے پیارے شبیر، میں تمہیں سلام کہتی ہوں۔ تمہاری خیریت دریافت نہیں کر سکتی، کیونکہ اس ریاست کی جیلوں اور عقوبت خانوں میں کوئی بھی خیریت سے نہیں ہوتا۔

شبیر، ۴ اکتوبر ۲۰۱۶ کے اُس دن کے بعد سے ہماری زندگیوں کے رنگ بدل گئے ہیں۔ بلوچستان پہلے سے زیادہ جنگ زدہ لگنے لگا ہے۔ ہر دن کئی لوگ جبری طور پر لاپتہ کیے جاتے ہیں، اور نہ جانے کتنی لاشیں ویران سڑکوں اور اندھیروں میں پھینکی جاتی ہیں۔

تم اکثر اپنی محفلوں میں کہتے تھے کہ ریاست بلوچوں پر جانوروں جیسا سلوک کرے گی۔ اُس وقت شاید میں نے یہ بات دل پر نہ لی تھی۔ لیکن آج جب میں اپنی آنکھوں سے یہ ظلم دیکھ رہی ہوں تو ہر دن تمہاری باتیں میرے دل کو چھیدتی ہیں۔ میں نے کبھی نہ سوچا تھا کہ ایک دن مجھے، تمہاری بہن کو، تمہیں یہ سب حالات سنانے پڑیں گے۔ میں ہمیشہ یقین کرتی رہی کہ تم ہی آؤ گے اور سمجھاؤ گے کہ غلامی کی زندگی کیسی ہوتی ہے۔

لیکن آج یہ قلم میرے ہاتھ میں ہے، اور میں یہ خط اس لیے لکھ رہی ہوں کہ تمہارے جانے کے بعد ہماری دنیا کس طرح بدل گئی ہے اور کس طرح بلوچستان جھلس رہا ہے، تمہیں بتا سکوں۔

شبیر، اماں کے درد و غم کی داستان مجھ سے بیان نہیں کی جائے گی، اس لیے مجھے پیشگی معاف کردینا۔ وہ دن رات دروازے کے سامنے بیٹھی رہتی ہے، اس آس پر کہ شاید میرا شبیر واپس آئے اور وہ تمہیں سینے سے لگا کر برسوں کا درد بہا دے۔ وہ راتوں کو جاگتی رہتی ہے، جیسے اس کی نیند بھی تمہارے ساتھ قید کر لی گئی ہو۔

شبیر، تمہارے جانے کے بعد گھر کی خوشیاں رخصت ہو گئیں۔ زرینہ اب وہ زرینہ نہیں رہی جسے تم نے دیکھا تھا۔ اُس کی مسکراہٹ چہرے سے غائب ہو گئی ہے۔ وہ محفلوں میں نہیں جاتی، باتیں نہیں کرتی۔ شبیر، زرینہ خاموش ہو گئی ہے۔میں بار بار اسے کہتی ہوں کہ خود کو سنوارو، نئے کپڑے پہنو، لیکن وہ بس خاموش ہو جاتی ہے اور اتنا کہتی ہے:
“میں خود کو تب سنواروں گی جب میرا شبیر واپس آئے گا، میں پھر دلہن بنوں گی۔” یہ کہتے ہوئے اُس کی آنکھوں سے آنسو بہہ پڑتے ہیں۔ اور مجھ سے یہ برداشت نہیں ہوتا!

میں نے فیصلہ کر تو لیا ہے تمہیں خط لکھنے کا لیکن شبیر میں نو سال کیسے ایک خط میں محصور کرلوں؟ کوشش کرتی ہوں!
جانتے ہو ایک دن ہم کراچی گئے، کسی ریلی کے لیے۔ میں اور زرینہ سب سے پہلے پریس کلب پہنچے۔ لیکن وہاں پولیس کا پہرہ تھا۔ ہم جیسے پہنچے ہمیں گاڑی میں بٹھا کر اپنی چوکی لے گئے۔ یہ میری زندگی کا پہلا تجربہ تھا کہ مجھے پولیس کی وین میں بٹھایا گیا تھا، بہت ڈر گئی تھی اور آنکھوں میں آنسو بھر آئے تھے۔ مجھے خوف اپنے لیے نہیں تھا لیکن یہ سوچ کہ تمہیں بھی اسی طرح جبراً کسی گاڑی میں گھسیٹتے، مارتے ہوئے بٹھایا ہوگا۔ لیکن جانتے ہو تمہاری مہربان زرینہ نے مجھے دلاسہ دیا اور کہا، “پریشان مت ہو، ہم ابھی چوکی پر ہیں، ہمیں کچھ نہیں ہوگا۔”

ہماری زندگی بس ایک دوسرے کو تسلی دینے میں گزر رہی ہے۔ ہمیں رہا تو کر دیا گیا، مگر وہ لمحے آج تک دل سے نہیں نکلتے۔

درد اس قدر زیادہ ہے کہ قلم بھی انہیں کاغذ پر اتارنے پر پشیمان ہے۔ جانتے ہو ایک ذیشان ظہیر تھا، جو اپنے گمشدہ والد کی بازیابی کے لیے جدوجہد کر رہا تھا، ایک رات جبری طور پر لاپتہ کیا گیا۔ اگلی صبح اس کی مسخ شدہ لاش اُس کے گھر والوں کے لیے بطور تحفہ پھینک دی گئی۔ اُس کی شہادت نے پورے بلوچستان کو سوگوار کر دیا۔ ہر شہر میں لوگ نکلے، ریلیاں نکالی گئیں، شمعیں روشن ہوئیں۔ ہم نے بھی بی وائی سی کی جانب سے حب چوکی میں ریلی نکالی۔ ذیشان کی شہادت نے ہر آنکھ اشک بار کردی تھی۔

جب ہم حب چوکی پہنچے تو وہاں بھی پولیس نے پورے پریس کلب کو گھیر لیا، ہمیں روکنے کی کوشش کی۔ ہم پیچھے نہ ہٹے، ہم نے سڑک پر اپنی پرامن ریلی شروع کی۔ چند ہی منٹ گزرے تھے کہ پولیس نے حملہ کر دیا، ہم پر تشدد ہوا، ہمیں لات مارے گئے، فائرنگ کی گئی، ہمیں گاڑیوں میں ڈال کر گالیاں دی گئیں، شبیر وہ گالیاں جو ہمارے روح لرزا رہی تھیں، ہم نے وہ گالیاں کھائیں اس دن، اور میں اس دوران یہی سوچ رہی تھی کہ ہم نے آخر کیا کیا ہے جس کی وجہ سے ہمیں اس قدر ڈنڈے، لاتیں اور گالیاں کھانی پڑ رہی ہیں؟ ہمیں چوکی منتقل کر دیا گیا۔

شبیر جان اب پتہ چلا کہ ریاست اس لیے جبر نہیں کرتی کیونکہ ہم آواز اٹھاتے ہیں بلکہ اس لیے کہ ریاست جان چکی ہے کہ اب ہم بے شعور نہیں ہیں، ہمیں تم جیسے سیاسی کارکنان نے جو شاید آج عقوبت خانوں میں قید ہیں، شعور دیا ہے۔

ریاست چاہے جتنا چاہے ہمیں دبانے کی کوشش کرے، لیکن جب تک ہماری سانس باقی ہے، ہم تم سمیت تمام لاپتہ بلوچوں کے لیے آواز بلند کرتے رہیں گے۔

میرے شبیر جان،
یہ دوسری مرتبہ تھا کہ مجھے ایسی جگہ دیکھنے کا موقع ملا۔ کچھ حد تک مجھے ادراک تھا کہ بلوچوں کے ساتھ یہ کس قسم کا سلوک کرتے ہیں۔ میں نے ان افراد سے کوئی شکایت نہیں کی، لیکن ان کا رویہ ایسا تھا جیسے وہ ہمارے ساتھ انسان نہیں، بلکہ جانوروں کی طرح سلوک کر رہے ہوں۔ ہم یہ تک نہ جان سکے کہ ہم کس چوکی پر ہیں۔

میری ایک ہی کوشش تھی کہ کسی طرح کسی سے حال احوال معلوم کروں، لیکن سیما سمیت کئی ساتھیوں کے موبائل میرے پاس تھے اور مجھے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کس سے رابطہ کروں۔ اسی دوران مجھے تمہارے ایک پرانے سیاسی دوست یاد آئی، جو تمہارے ساتھ بی ایس او آزاد میں تھی، جو تم سے بہت قریب تھی، تمہاری بہن جیسی، جو تمہیں آج تک بے پناہ یاد کرتی ہے اور اسی امید پر زندہ ہے کہ شاید تم لوٹ آؤ گے، جو اب ایک عرصے سے ہمارے ساتھ ہے، ہمارے خاندان کا حصہ ہے۔ میں نے اسے پیغام بھیجا۔ وہ مصروف تھی مگر کچھ دیر بعد اس کا جواب آیا۔ زیادہ بات نہ ہو سکی کہ اچانک اُن ظالموں نے میرے ہاتھ سے موبائل چھین لیا اور مجھ پر ٹوٹ پڑے۔ میں صرف اسے یہ بتا سکی کہ مجھے گرفتار کر لیا گیا ہے۔ پولیس نے گالیاں دینے کے ساتھ اتنا شدید تشدد کیا گیا کہ میرا جسم لہولہان ہو گیا اور میں بے ہوش ہو گئی۔

جب ہوش آیا تو میرے تمام ساتھی میرے گرد کھڑے تھے۔ لیکن میرے دل و دماغ پر صرف ایک ہی خیال چھایا ہوا تھا، میرا شبیر کس حال میں ہوگا؟ وہ کتنے برسوں سے ان ہی اندھیروں میں قید اذیت سہہ رہا ہوگا؟ یہ سوچتے ہی میری آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ ساتھی شور مچانے لگے: “ڈاکٹر کو بلاؤ، معلوم نہیں اس کی حالت کیسی ہے۔” ایک نے مجھے تسلی دی: “خود کو پریشان مت کرو، کچھ نہیں ہوگا۔” لیکن میرے ہونٹوں پر کوئی لفظ نہ آیا۔ میں اپنے لیے پریشان نہ تھی، میرا دل تو صرف تمہارے درد میں ڈوبا ہوا تھا۔
شبیر جان، اس لمحے مجھے یوں لگا جیسے میرے جسم پر پڑنے والا ہر وار تم پر برس رہا ہو۔ میں سوچتی رہی کہ تم کس کیفیت سے گزر رہے ہو اور کس اذیت میں قید ہو۔ نو برس، کئی سو دن اور راتیں جنہیں تم نے زنجیروں اور تاریکی کے ساتھ گزارا، میرے تصور سے بھی باہر ہیں۔

اسی دوران ایک خاتون پولیس اہلکار آئیں اور ہمیں دوسرے کمرے میں لے گئیں۔ وہ کمرہ گرم تھا اور سیاہ اندھیروں سے بھرا ہوا تھا۔ ہم سب بس حیران اور پریشان کھڑے تھے۔ کوئی نہ جانتا تھا کہ آگے ہمارے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ لیکن میرے دل میں ایک ہی سوال تھا:
اگر ایک دن کی یہ اذیت مجھے اتنی توڑ دیتی ہے، تو میرا شبیر آٹھ برسوں سے کس طرح زندہ ہے؟ دو تین گھنٹوں کے بعد اچانک زور سے آواز دی گئی کہ اٹھ جاؤ تمہیں رہا کیا جا رہا ہے، تمہارے لوگ تمہیں لینے آ گئے ہیں، لیکن ہمیں ذرا بھی خوشی محسوس نہ ہوئی بلکہ تمام ساتھی حیرانی اور اضطراب کے عالم میں ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔

ہمیں چوکی سے نکال کر گاڑی میں بٹھا دیا گیا۔ کچھ ہی فاصلے پر جانے کے بعد ایک خاتون پولیس نے بلند آواز میں کہا کہ اب تمہیں گڈانی جیل لے جایا جا رہا ہے، اب وہاں اپنی زندگیاں بسر کرنا۔ تم لوگوں نے ہمیں ذلیل کر کے رکھ دیا ہے، ہر روز ریلیاں نکالتے ہو، تمہاری وجہ سے ہم دن رات ڈیوٹی کرتے ہیں۔ یہ سن کر ہم نے شور کیا اور نعرے بلند کیے، مگر انہوں نے طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ کہا کہ جتنا شور مچانا ہے مچا لو، رات کے چار بجے کوئی تمہاری آواز سننے والا نہیں۔۔۔!

جب ہم گڈانی جیل پہنچے تو انہوں نے کہا کہ اگر گاڑی سے نہیں اترے تو ہم زبردستی اتاریں گے۔ ہم نے احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے کون سا ایسا جرم کیا ہے کہ ہمیں جیل میں رکھا جائے، مگر ہماری آواز پر کوئی کان نہ دھرا۔ ایک بلوچی ڈی ایس پی تھا جس کا نام امام حسین تھا، اسی نے اپنی خاتون سپاہیوں کو بلند آواز اور شدید غصے کے ساتھ حکم دیا کہ ان لوگوں کو زبردستی گاڑی سے گھسیٹ کر اتارو۔ پھر ہم پر تشدد کیا گیا اور ہمیں گھسیٹتے ہوئے جیل کے اندر لے جایا گیا۔

شبیر جان باتیں بہت ہیں، سمجھ نہیں آ رہا کیا کیا بتاؤں، لیکن بس اتنا کہہ سکتی ہوں تمہارے بعد ریاست نے ہمیں بہت تنگ کیا، ہر صورت دھمکایا، لیکن سیما کی ہمت نے مجھے، زرینہ، اماں اور ابا کو مضبوطی سے تھاما ہوا ہے۔ شبیر تمہیں یاد ہے نو سال پہلے تک سیما بات کرتے ہوئے بھی کتراتی تھی؟ اردو تو سیما کے بس کی بات بھی نہیں تھی، لیکن شبیر جان آج سیما اردو میں کراچی اور اسلام آباد کی چوراہوں پر کھڑے ہو کر ریاست کو للکارتی ہے۔

ہمیں تمہارے غم نے باہمت کردیا ہے شبیر، ہم غم میں بڑے ہو رہے ہیں۔۔۔

میں اب اس خط کا اختتام کرتی ہوں اسی امید کے ساتھ کہ یہ جدائی کا غم ایک دن مٹ جائے گا، لیکن قریب بھری یادیں میرے دل میں پیوست رہیں گی اور شبیر یہ وعدہ ہے تم سے کہ جب تک ہمارے جسموں میں سانس باقی ہے، ہم میں سے کوئی بھی جبری طور پر گمشدگان کے لیے مزاحمت بند نہیں کرے گا۔

شبیر ہمیں ماہ رنگ نے سکھایا ہے، مزاحمت زندگی ہے اور ہم اسی زندگی میں زندہ ہیں۔۔۔!

تمہاری جدائی کی تلخ یادیں ہم سے الگ نہیں ہو سکتیں۔ بس مختصر یہی عرض ہے کہ جلد از جلد تمام جبری گمشدگان کے ساتھ تم بھی بازیاب ہو جاؤ، اور ہم بھی جہاں کے دیگر زندہ لوگوں کی مانند زندہ رہ سکیں!

تمہاری چھوٹی سی بہن
سمُّل


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔