فراموش شدہ محاذ: The Forgotten Front
تحریر: بادوفر بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
جب پاکستان اور افغانستان کھلی محاذ آرائی کے قریب پہنچ رہے ہیں اور امریکہ خاموشی سے جنوبی ایشیا میں دوبارہ متحرک ہو رہا ہے، تو بلوچستان کی سنگلاخ سرزمین پر ایک نسبتاً خاموش مگر نہایت اہم جدوجہد بدستور سلگ رہی ہے۔ بلوچ عوام، جو طویل عرصے سے ریاستی طاقت، عسکری پالیسیوں اور علاقائی مفادات کے بیچ پسے ہوئے ہیں، ایک بار پھر اپنی ’’بقا اور شناخت‘‘ کی جنگ کو نئے جغرافیائی و سیاسی تغیرات کے درمیان شدت سے محسوس کر رہے ہیں۔
افغان طالبان کی 2021 میں افغانستان پر واپسی کے بعد پاک-افغان سرحدی کشیدگی میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ اسلام آباد کابل پر الزام لگاتا ہے کہ وہ تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے جنگجوؤں کو پناہ دیتا ہے، جو پاکستان کے سرحدی علاقوں میں حملے کرتے ہیں، جبکہ کابل ان الزامات کی سختی سے تردید کرتا ہے۔ مگر دشوار گزار سرحدی جغرافیہ، قبائلی روابط اور ناقص انتظامی نگرانی نے اس خطے کو ایک پیچیدہ، شورش زدہ راہداری بنا دیا ہے ایک ایسا ماحول جس میں بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے)، جو بلوچستان کی مسلح تحریک میں سب سے نمایاں تنظیم سمجھی جاتی ہے، نے اپنی سرگرمیاں تیز کر دی ہیں۔
گزشتہ چند برسوں میں بی ایل اے نے فوجی تنصیبات، چائنا-پاکستان اکنامک کاریڈور (سی پیک) سے وابستہ منصوبوں، اور حکومتی اداروں پر منظم اور ہدفی حملے کیے ہیں، اور خود کو بلوچ خودمختاری، وسائل پر اختیار اور ثقافتی بقا کا محافظ قرار دیا ہے۔
ریاستِ پاکستان کا ردِعمل حسبِ توقع مگر مہنگا رہا ہے: سخت عسکری کارروائیاں، بڑے پیمانے پر گرفتاریوں کی مہم، اور خفیہ اداروں کا پھیلتا ہوا نیٹ ورک۔ حکومت ان اقدامات کو دہشت گردی کے خلاف جنگ قرار دیتی ہے، لیکن انسانی حقوق کی تنظیمیں مسلسل جبری گمشدگیوں، اجتماعی سزاؤں، اور سیاسی و سماجی سرگرمیوں پر پابندیوں کی نشاندہی کرتی ہیں۔ بہت سے عام بلوچوں کے نزدیک یہ اقدامات اس احساس کو تقویت دیتے ہیں کہ ان کی ثقافتی شناخت اور شہری آواز کو جان بوجھ کر دبایا جا رہا ہے۔
جبری گمشدگیوں کا مسئلہ بلوچستان کے انسانی حقوق کے بحران کی سب سے نمایاں علامت بن چکا ہے۔ ہزاروں خاندانوں نے اپنے پیارے، طلبہ، کارکنوں، اساتذہ اور دانشوروں کے لاپتہ ہونے کی اطلاع دی ہے، جنہیں مبینہ طور پر سیکیورٹی اداروں نے اٹھایا۔ ان گمشدگیوں کے خلاف صوبے بھر میں احتجاجی تحریکیں ابھر چکی ہیں، جن کی قیادت ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ جیسے باہمت نوجوان کر رہے ہیں۔ ایک ڈاکٹر ہونے کے ساتھ ساتھ وہ بلوچ خواتین اور متاثرہ خاندانوں کی علامت بن چکی ہیں۔ ان کی قیادت میں ہونے والے پُرامن دھرنوں اور لانگ مارچز نے نہ صرف ملکی بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی توجہ حاصل کی ہے، جو بلوچستان میں عسکری حکمرانی کی انسانی قیمت کو نمایاں کرتے ہیں۔ تاہم انصاف کے مطالبات کے باوجود بیشتر کیسز تاحال حل طلب ہیں، جس سے عوامی غصہ، بداعتمادی اور ریاست سے بیگانگی مزید بڑھ رہی ہے۔
اسی دوران، امریکا کی خاموش مگر بڑھتی ہوئی تزویراتی دلچسپی نے اس معاملے کو ایک نئی جہت دے دی ہے۔ توانائی کے تحفظ، قیمتی معدنیات اور انسدادِ دہشت گردی کے نئے عالمی ایجنڈے نے واشنگٹن کو ایک بار پھر پاکستان کے طاقتور اداروں کے قریب کر دیا ہے۔ امریکا کی جانب سے بی ایل اے کو دہشت گرد تنظیم قرار دینا، جو اسلام آباد کے مؤقف کے عین مطابق ہے، انسانی حقوق کے حلقوں میں شدید تنقید کا باعث بنا۔ ناقدین کے مطابق اس فیصلے نے پاکستان کے عسکری بیانیے کو تقویت دی ہے، جبکہ بلوچوں کے جائز سیاسی مطالبات کے لیے عالمی ہمدردی کو کمزور کیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، بلوچستان میں موجود تانبے، لیتھیئم اور دیگر نایاب معدنیات پر امریکا کی بڑھتی ہوئی دلچسپی اس خطرے کو جنم دیتی ہے کہ ’’استحکام‘‘ کو انصاف پر فوقیت دی جائے، چاہے وہ استحکام طاقت کے زور پر ہی کیوں نہ قائم کیا جائے۔
ان بدلتے ہوئے علاقائی و عالمی حالات میں بلوچ قومی تنظیموں کو ایک نازک اسٹریٹجک موڑ کا سامنا ہے۔ مسلح جدوجہد پر انحصار، اگرچہ ان کے بیانیے کا مرکزی پہلو رہا ہے، مگر اب بین الاقوامی سطح پر انسانی حقوق، وسائل کی شفافیت، اور جمہوری نمائندگی کی اہمیت نے بلوچ تحریک کے لیے ایک نیا سیاسی چیلنج اور موقع فراہم کیا ہے۔ اگر بلوچ تحریکیں اپنی سفارتی حکمت عملی کو بہتر بنائیں، انسانی حقوق کی پاسداری کو اپنا شعار بنائیں، اور پرامن جمہوری جدوجہد کے پہلو کو اجاگر کریں، تو وہ نہ صرف اپنی اخلاقی و بین الاقوامی حیثیت مضبوط کر سکتی ہیں، بلکہ اس تاثر کو بھی توڑ سکتی ہیں کہ بلوچ مزاحمت محض عسکری نوعیت کی ہے۔
بلوچ عوام کے لیے موجودہ صورتِ حال ایک دو دھاری تلوار کی مانند ہے؛ امکانات اور خطرات، امید اور مایوسی، بین الاقوامی ہمدردی اور اندرونی بیگانگی، سب ایک ہی وقت میں ان کے اردگرد منڈلا رہے ہیں۔ ایک طرف عالمی برادری کی توجہ اُن کے دیرینہ استحصال، ثقافتی جبر، اور قدرتی وسائل کی بے دریغ لوٹ مار کو عالمی ضمیر کے سامنے لا سکتی ہے۔ اگر یہ توجہ سنجیدہ مکالمے، شفافیت اور انسانی وقار کی بنیاد پر برقرار رہی تو بلوچوں کو ایک نئی آواز، نیا پلیٹ فارم، اور ایک منصفانہ مستقبل مل سکتا ہے۔
بلوچستان کی بقا اور شناخت کی یہ جدوجہد اب محض ایک “اندرونی تنازع” نہیں رہی۔ یہ جنوبی ایشیا کے بدلتے ہوئے تزویراتی نقشے، ریاستی طاقت کی داخلی حدود، اور عالمی طاقتوں کی وسائل پر نظر کے بیچ ایک فیصلہ کن مقام پر کھڑی ہے۔ یہ جنگ اب اُن خاموش معرکوں میں سے ہے جو بظاہر نظروں سے اوجھل ہوتے ہیں، مگر ان کی بازگشت دہائیوں تک محسوس کی جاتی ہے۔
جب تک ریاستِ پاکستان سلامتی کے ساتھ انصاف کو نہیں جوڑتی، تب تک بلوچستان کے زخم مندمل نہیں ہوں گے۔ اور جب تک عالمی طاقتیں محض اپنے تزویراتی اور معاشی مفادات کے گرد فیصلے کرتی رہیں، اور انسانی حقوق کو محض بیانیاتی آلہ بنائے رکھیں، تب تک یہ خطہ “امن” کے نام پر ایک غیرمستحکم خاموشی کے رحم و کرم پر رہے گا۔
کیونکہ شناخت کو طاقت، بندوق، اور خفیہ ایجنسیوں کے بل پر وقتی طور پر دبایا جا سکتا ہے مگر ہمیشہ کے لیے خاموش نہیں کیا جا سکتا۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ جبر جتنا بھی منظم ہو، اگر شناخت کی بنیاد زندہ ہو، تو وہ ایک دن سوال بن کر ابھرتی ہے اور سوال کبھی صرف طاقت سے ختم نہیں ہوتے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔













































