کوئٹہ پریس کلب میں غنی بلوچ کے اہلِ خانہ نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے ان کی بازیابی کے لیے ایک بار پھر حکام اور انسانی حقوق کے اداروں سے فوری کارروائی کا مطالبہ کیا۔ اہلِ خانہ کا کہنا تھا کہ غنی بلوچ 25 مئی 2025 سے جبری طور پر لاپتہ ہیں اور اب تک ان کا کوئی سراغ نہیں ملا۔
اہلِ خانہ نے بتایا کہ غنی بلوچ کی گمشدگی کو 142 دن گزر چکے ہیں، مگر پولیس، انتظامیہ یا عدلیہ میں سے کسی نے تاحال یہ نہیں بتایا کہ وہ کہاں ہیں اور کس کی تحویل میں ہیں۔ انہوں نے مؤقف اختیار کیا کہ ’’ہم نے ہر آئینی راستہ اپنایا، عدالتوں سے رجوع کیا، تمام ثبوت اور شواہد فراہم کیے، لیکن کسی ادارے نے تحقیقات کو آگے نہیں بڑھایا۔‘‘
پریس کانفرنس میں بتایا گیا کہ خضدار ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ نے کیس اس بنیاد پر خارج کر دیا کہ اہلِ خانہ جبری گمشدگی پر تحقیقات ثابت نہیں کر سکے۔ اہلِ خانہ نے اس مؤقف کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ تحقیقات کرنا متاثرہ خاندان کا نہیں بلکہ ریاستی اداروں کا کام ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’ہم نے تاریخ، جگہ، اور ٹرانسپورٹ کمپنی کے تمام ریکارڈ جمع کرائے، لیکن پولیس نے نہ کمپنی سے معلومات حاصل کیں، نہ جائے وقوعہ یا کوچ کے کیمروں کی فوٹیج طلب کی۔‘‘
اہلِ خانہ کا کہنا تھا کہ غنی بلوچ کی گمشدگی نہ صرف ایک خاندان کا ذاتی دکھ ہے بلکہ آئینِ پاکستان کی صریح خلاف ورزی ہے۔ ان کے مطابق آئین ہر شہری کے زندگی اور آزادی کے حق کی ضمانت دیتا ہے، اور کسی بھی شخص کو گرفتار کرنے کے بعد عدالت کے سامنے پیش کرنا لازمی ہے۔
اہلِ خانہ نے مزید کہا کہ ’’چار ماہ سے زائد گزرنے کے باوجود نہ غنی بلوچ کو پیش کیا گیا، نہ بتایا گیا کہ وہ کہاں ہیں۔ یہ نہ صرف آئینی بلکہ انسانی حقوق کی بھی خلاف ورزی ہے۔‘‘
انہوں نے عدلیہ، حکومت، انسانی حقوق کے اداروں اور میڈیا سے اپیل کی کہ وہ اس معاملے پر آواز بلند کریں اور غنی بلوچ کی بازیابی کے لیے مؤثر اقدامات کریں۔ اہلِ خانہ نے اعلان کیا کہ وہ اپنے پیارے کی واپسی تک خاموش نہیں بیٹھیں گے۔