شہید پدائی رشید جان — ایک ساتھی، ایک استاد – میرل بلوچ

43

شہید پدائی رشید جان — ایک ساتھی، ایک استاد

تحریر: میرَل بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

کچھ لوگ ہماری زندگی میں ایسے آتے ہیں کہ ہم خود نہیں جانتے کہ ان کی آمد ہمارے لیے کتنا بڑا سبق لے کر آئے گی۔ وہ لوگ ہمارے دل میں ایسے سوالات پیدا کرتے ہیں جن کے ذریعے ہم خود کو، اپنی زندگی کو اور اپنے مقصد کو پہچاننے لگتے ہیں۔ وہ ہمیں سکھا جاتے ہیں کہ زندگی صرف سانس لینے کا نام نہیں، بلکہ ایک نظریہ، ایک جدوجہد ہے۔ اور پھر ایک دن وہ خاموشی سے ہمیں چھوڑ جاتے ہیں، لیکن ان کے دیے ہوئے سوال، ان کی باتیں، اور ان کی سچائیاں ہمیشہ ہمارے ساتھ رہتی ہیں۔ وہی باتیں ہمیں زندگی میں آگے بڑھنے کا حوصلہ دیتی ہیں۔

ایسا ہی ایک ساتھی شہید رشید جان تھا۔ وہ نہ صرف میرا قریبی دوست تھا بلکہ میرا استاد بھی تھا۔ رشید جان نے بندوق اٹھائی، لیکن صرف بندوق سے نہیں، وہ شعور اور علم سے بھی دشمن سے لڑتا رہا۔ جب تک زندہ رہا، دشمن کی پالیسیوں کو سمجھتا رہا اور ان کو بےنقاب کرتا رہا۔

جیسا کہ بابا کہتے تھے: “دشمن جب آتا ہے تو چہرہ بدل کر آتا ہے، لیکن ہمیں پھر بھی اُسے پہچاننا ہوتا ہے۔”

رشید جان کا تعلق ڈی جی خان سے تھا، جسے آج پاکستان پنجاب کا حصہ کہا جاتا ہے، لیکن حقیقت میں یہ بھی دشمن کی ایک سازش کا نتیجہ ہے — تقسیم کی پالیسی۔

پاکستان کوئی ملک نہیں، بلکہ ایک منصوبہ تھا، جو برطانیہ نے اپنے مفادات کے لیے بنایا۔ آج بھی پاکستان مختلف طاقتوں کے لیے ایک سہولت ہے۔ جس طرح برطانیہ نے ہندوستان کو “Divide and Rule” کی پالیسی سے توڑا، اسی طرح پاکستان نے بھی بلوچ سرزمین کو بانٹنے کی کوشش کی۔

بلوچ گلزمین جو 7 لاکھ96 ہزار مربع میل پر پھیلا ہوا ہے، اسے رفتہ رفتہ تقسیم کیا گیا — ایران، افغانستان کو حصہ دیا گیا، پھر پاکستان نے بھی اسے مختلف حصوں میں تقسیم کر دیا۔

اسی پالیسی کے تحت کوہِ سلیمان کو پنجاب کا حصہ بنا دیا گیا۔ اس کا مقصد تھا کہ بلوچوں کو ایک دوسرے سے الگ کر کے، ان کے تعلقات ختم کر دیے جائیں اور ان کی قومی شناخت مٹا دی جائے۔

یہ ایک نفسیاتی جنگ تھی۔ لوگوں کو ان کی اپنی شناخت سے غافل کر دیا گیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ جنگ محدود ہو گئی، سیاست کمزور ہو گئی اور سب کی توجہ صرف مکران پر رہ گئی۔ یہاں تک کہ لوگ ڈی جی خان کو بھی “پنجاب” ماننے لگے۔ لیکن وقت نے کروٹ لی .جیسا کہ فرانز فینن کہتا ہے: “ایک دن مظلوم خود کو پہچان لیتا ہے۔ یہاں بھی یہی ہوا، لیکن پہچان کے ساتھ ساتھ جدوجہد کی ضرورت بھی تھی — اور رشید جان نے اسی جدوجہد کو اپنایا۔

رشید جان سے میری پہلی ملاقات جنوری 2022 میں ہوئی، جب میں کوئٹہ میں پڑھ رہا تھا۔ اس وقت میں اپنی زندگی میں مگن تھا، بس ایک اچھا افسر بننے کا خواب تھا، نہ قوم کی خبر تھی نہ خود کی پہچان۔ بس وقت گزر رہا تھا۔ رشید جان سے ملاقات ایک اتفاق تھا، لیکن وہ اتفاق میری زندگی بدل گیا۔

وہ ایک خوبصورت نوجوان تھا، لمبے بال، بڑی داڑھی، لیکن بہت خاموش۔ ایسی خاموشی جس کے پیچھے ایک طوفان چھپا ہوا تھا۔ وہ کسی برف پوش آتش فشاں جیسا تھا — کم بولتا، لیکن جب بولتا تو بات دل میں اُتر جاتی۔ ہم اکثر بلوچ سیاست، بلوچ جنگ، اسٹوڈنٹ تحریک پر بات کرتے۔ وہ کہا کرتا تھا: “ہمارے لوگ آرام پسندی کا شکار ہیں۔ جو سیاست کر رہے ہیں، انھیں سیاست کا اصل مطلب تک نہیں پتا۔”

وہ بی ایس او کا رکن رہا تھا، لیکن اسے جلد چھوڑ دیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ بی ایس او کے مرکز کا ایک عہدیدار ڈی جی خان زوان میں شامل ہو گیا ہے جبکہ مرکز ممبران کی طرف سے ایسے کوئی احکمات جاری نہیں کیئے گئے تھے۔جس پر شہید نہ یہ سوال اٹھایا ہے کہ سنگت کو زوان میں عہدیدار کیوں بنایا گیا ہے؟

سنگت کو پہلے یونٹ میں شامل کرو تاکہ یونٹ ممبران کی اچھی طرح سے نظریاتی نشوونما ہو لیکن ایسا نہیں ہو سکھا باقول شہید اسی وجہ سے اس نے تنظیم کو کچھ کہے بغیر خیرباد کہا۔رشید جان نے اس کی مخالفت کی اور بی ایس او کو خیر باد کہا۔ وہ ہمیشہ اس بات پر زور دیتا تھا کہ ڈی جی خان کو پنجاب کا حصہ صرف اس لیے بنایا گیا تاکہ بلوچوں کو بانٹ دیا جائے۔

رشید جان ایسے علاقے میں پیدا ہوا تھا جہاں مذہب سب کچھ تھا، لیکن اس نے اپنی قوم کو مذہب سے بھی اوپر رکھا۔ وہاں کے لوگ قبائلی جھگڑوں میں الجھے تھے، لیکن رشید جان نے علم اور جدوجہد کا راستہ چُنا۔ وہ خود ایک انقلاب کا آغاز تھا۔

کوئٹہ سے روانگی کے وقت ہم نے ایک دوسرے کا نمبر لیا۔ کبھی کبھار وہ خیریت پوچھتا تھا۔ پھر وہ پہاڑوں پر چلا گیا — بلوچ لبریشن آرمی کا حصہ بن گیا۔ 2024 میں اس نے دوبارہ مجھ سے رابطہ کیا۔ ہم مسلسل رابطے میں رہے۔ وہ جنگ کی اہمیت پر زور دیتا، کہتا: “جنگ ایک خواہش نہیں، بلکہ ایک ضرورت ہے۔”

میں نے ایک بار اس سے پوچھا کہ کیا وہاں پڑھنے کا وقت ملتا ہے؟ اس نے کہا: “یار، یہاں بہت کام ہوتا ہے، لیکن جب وقت ملتا ہے تو ضرور پڑھتا ہوں۔”

اور ساتھ میں یہ بھی کہتا: “جنگ خود ایک تعلیم ہے۔”

ہماری آخری بار رابطہ رشید جان کی شہادت سے کچھ دن پہلے ہوا۔ جہاں ہم نے وطن ،جنگ اور فدائی حملوں پر بات کی۔ بقول رشید جان کے اب فدائی حملے جنگ کی ضرورت بن چکے ہیں۔ آخر میں انھوں نے مجھ سے یہی کہا کہ تم پڑھتے رہو جب رابطہ ہوگا تو ڈسکشن ہوگی۔ لیکن پھر رابطہ نہ ہو سکا۔ وہ چلا گیا لیکن اس نے میرا وجود مجھے ڈھونڈ کر دے دیا۔۔ وہ ہمیشہ چاہتا تھا کہ میں سوال کروں، ڈسکشن کروں، سیکھوں، سکھاؤں۔

آج وہ جسمانی طور پر میرے ساتھ نہیں، لیکن اس کے خیالات، اس کی سچائیاں، اور اس کی دی ہوئی بصیرت میرے دل و دماغ میں زندہ ہیں۔ وہ شہید ہو گیا، لیکن وہ مجھے ایک نظریہ دے گیا — ایک جنگ دے گیا — اور ایک شناخت دے گیا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔