شبیر بلوچ کی جبری گمشدگی کے 9 سال: تربت میں ریلی اور سیمینار کا انعقاد

32

شبیر بلوچ کی جبری گمشدگی کے خلاف تربت میں شہریوں کی بڑی تعداد نے ریلی نکالی اور جبری گمشدگیوں کے خاتمے سمیت لاپتہ افراد کی بازیابی کا مطالبہ کیا۔

تفصیلات کے مطابق بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے رہنما شبیر بلوچ کو 4 اکتوبر 2016 کو پاکستانی فورسز کے ہاتھوں جبری طور پر لاپتہ کیا گیا تھا، ان کی جبری گمشدگی کے 9 سال مکمل ہونے پر تربت میں ان کے لواحقین اور بلوچ وومین فورم کی جانب سے ریلی اور سیمینار کا انعقاد کیا گیا۔

اس موقع پر نکالی گئی ریلی مختلف شاہراہوں سے ہوتی ہوئی شہید فدا چوک پہنچی جہاں سیمینار کا اہتمام کیا گیا۔

سیمینار کے پہلے حصے میں پینل ڈسکشن ہوا جس میں فوزیہ بلوچ، سیما بلوچ، لاپتہ اسرار بلوچ کی والدہ اور ایڈووکیٹ مجید دشتی شریک تھے، جبکہ نصرین بلوچ نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔

اس دوران لاپتہ شبیر بلوچ کی ہمشیرہ سیما بلوچ نے اپنے خطاب میں کہا کہ شبیر نہ صرف اپنے خاندان کی ذمہ داری اٹھانے والے تھے بلکہ ایک ہنس مکھ انسان دوست اور بہترین ساتھی بھی تھے، ان کی زندگی دو حصوں پر مشتمل تھی ایک سیاسی کارکن کے طور پر اور دوسرا ایک بھائی و دوست کے طور پر۔ 

سیما بلوچ نے کہا 4 اکتوبر ہماری زندگی میں ہمیشہ ایک منحوس دن کے طور پر یادگار رہے گا۔

انہوں نے کہا کہ شبیر بلوچ نے بلوچ عوام اور بلوچستان کے لیے اپنی جوانی قربان کر دی ان کی جبری گمشدگی سے قبل بھی ہمارے گھر پر چھاپے مارے گئے اور ہمیں تنگ کیا گیا، لیکن شبیر ہمیشہ حوصلہ دیتے رہے۔ 

انہوں نے کہا ہم آج بھی ان کی ہنسی اور خوش گپیوں کے منتظر ہیں ہم نے عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹائے مگر انصاف نہیں ملا جبری گمشدگی ایک ایسی اذیت ناک کیفیت ہے جسے وہی سمجھ سکتا ہے جو اس کا شکار ہو۔

شبیر بلوچ کے اہلیہ نے اس موقع پر کہا کہ وہ 9 سال سے اس کیفیت میں مبتلا ہے جہاں وہ یے نہیں سمجھ پارہی کہ انکے شوہر زندہ ہیں یا نہیں میں خود کو شبیر کی بیوی کہوں یا بیوہ۔

انہوں نے کہا کہ شوہر کے جبری گمشدگی کے 9 سال زندگی کے بدترین اور مشکل حالات سے بھرے سال رہے ہیں، اور اب بھی سڑکوں پر احتجاج کرنے نکلتی ہوں تاکہ اگر میرے شوہر زندہ ہیں تو انھیں واپس لوٹایا جائے۔

بی وائی سی کراچی کی رہنما فوزیہ بلوچ شاشانی نے کہا کہ بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کا سلسلہ بدستور جاری ہے تاریخ گواہ ہے کہ طاقتور اقوام نے ہمیشہ زیرِدست اقوام کے ساتھ آقا و غلام جیسا رویہ رکھا ہے اور آج بلوچ بھی اسی کا شکار ہیں ہماری ثقافت، تعلیم اور معیشت کو تباہ کیا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جب بلوچ عوام نے اپنی مظلومیت کے خلاف آواز بلند کی، تو انہیں یا تو نظرانداز کیا گیا یا ریاستی جبر سے دبایا گیا اسلام آباد دھرنے میں ہمارے ساتھ سب کے سامنے ظلم کیا گیا ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور ان کے ساتھی آج صرف اس لیے حراست میں ہیں کہ انہوں نے جبری گمشدگیوں کے خلاف آواز اٹھائی۔”

ایڈووکیٹ مجید دشتی نے اپنے خطاب میں کہا کہ کسی بھی شخص کو حبسِ بے جا میں رکھنا غیر قانونی ہے 1973 کے آئین میں انسانی حقوق سے متعلق جو شقیں شامل ہیں ان کی صریح خلاف ورزی کی جا رہی ہے، شبیر بلوچ کی جبری گمشدگی قابلِ مذمت ہے آج بھی تقریباً بیس ہزار بلوچ لاپتہ ہیں۔ 

انہوں نے کہا سردار اختر مینگل کی جانب سے وفاقی حکومت کو دی گئی فہرست کے بعد تقریباً پانچ سو افراد بازیاب ہوئے تھے، مگر ہزاروں اب بھی لاپتہ ہیں دنیا کے کسی ملک میں کسی کو چودہ گھنٹے سے زیادہ حبسِ بے جا میں نہیں رکھا جا سکتا لیکن یہاں برسوں گزر جاتے ہیں۔

تربت ریلی میں شہریوں کے ساتھ جبری لاپتہ افراد کے اہلخانہ بھی بڑی تعداد میں شریک ہوئے، جو اپنے پیاروں کی بازیابی کا مطالبہ کر رہے تھے، اس موقع پر لاپتہ اسرار بلوچ کی والدہ نے کہا 5 فروری 2015 کو کوئٹہ سے میرا بیٹا اسرار بلوچ لاپتہ کیا گیا، دس سال گزرنے کے باوجود ہمیں کوئی معلومات نہیں دی گئی ہم نے ہر ممکن جگہ آواز اٹھائی تاکہ ہمارے بیٹے کو بازیاب کرایا جا سکے۔

پینل ڈسکشن کے دوران مقررین نے زور دیا کہ جبری گمشدگیاں نہ صرف انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہیں بلکہ معاشرتی اور نفسیاتی تباہی کا بھی باعث بنتی ہیں۔ 

انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ تمام لاپتہ افراد کو بازیاب کرایا جائے اور اس عمل کے ذمے داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔