زہری میں فوجی آپریشن جاری، مقامی آبادی کو اہلخانہ سمیت فوجی کیمپ میں پیش ہونے کا حکم

82

خضدار کی تحصیل زہری میں پاکستانی فورسز کا آپریشن دو ہفتوں سے زائد عرصے سے جاری ہے، جس نے مقامی آبادی کو شدید خوف و عدم تحفظ کی فضا میں مبتلا کردیا ہے۔

علاقے میں انٹرنیٹ، موبائل اور دیگر مواصلاتی نظام گذشتہ کئی روز سے مکمل طور پر معطل ہیں، جبکہ داخلی و خارجی راستے بدستور بند ہیں جس کے باعث زہری دیگر بلوچستان سے عملاً کٹ چکا ہے۔

مقامی ذرائع کے مطابق پاکستانی فورسز نے زہری نورگامہ سمیت دیگر علاقوں کے رہائشی مکینوں کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنے تمام اہلخانہ، بشمول بشمول نوجوانوں کو زہری ہسپتال میں قائم فوجی کیمپ میں پیش کریں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ فورسز اہلکاروں نے خبردار کیا ہے کہ اگر کوئی خاندان اپنے تمام افراد، خصوصاً مردوں کو کیمپ میں پیش کرنے میں ناکام رہا تو اس کے سنگین نتائج بھگتنے پڑیں گے، اس ہدایت کے بعد علاقے میں خوف و ہراس کی کیفیت مزید بڑھ گئی ہے، جبکہ شہری خود کو غیرمحفوظ اور محصور محسوس کررہے ہیں۔

زہری کے رہائشیوں کے مطابق کئی گھروں پر پہلے ہی چھاپے مارے جا چکے ہیں اور متعدد افراد کو حراست میں لے کر نامعلوم مقام پر منتقل کیا گیا ہے، جبکہ جبری گمشدگی کا نشانہ بننے والوں میں خواتین بھی شامل ہیں۔

واضح رہے کہ زہری میں 15 ستمبر کو فضائی حملوں کے نتیجے میں دو خواتین سمیت سات شہری جانبحق ہوئے تھے، جس کے بعد 27 ستمبر کو فورسز نے زمینی آپریشن کا آغاز کیا تھا، جہاں ابتک فضائی حملوں میں 11 شہریوں کی جانبحق ہونے کے اطلاعات ہیں۔

پاکستانی فورسز کی جانب سے زہری کے مختلف علاقوں سے متعدد افراد کو حراست میں لیا گیا ہے جبکہ زہری بازار سمیت متعدد مقامات پر پاکستانی فورسز کی نفری بھاری ہتھیاروں کے ساتھ تعینات ہے۔

مزید برآں بلوچستان کے سیاسی و انسانی حقوق کے حلقوں نے اس صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے فوری طور پر آپریشن روکنے، لاپتہ کئے جانے والے افراد کی بازیابی، اور مواصلاتی نظام بحال کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔