زہری میں فوجی آپریشن، عام آبادی کو بمباری کا نشانہ بنایا گیا۔ ہیومین رائٹس کمیشن 

0

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان “ایچ آر سی پی” نے مطالبہ کیا ہے کہ صحافیوں اور غیر جانب دار مبصرین کو متاثرہ علاقوں کا دورہ کرنے اور حقائق کی تصدیق کی اجازت دی جائے۔

بلوچستان کے ضلع خضدار کی تحصیل زہری 15 ستمبر سے پاکستانی فورسز کے آپریشن کی زد میں ہے، جہاں فورسز نے بلوچ آزادی پسندوں کے اثر و رسوخ کو ختم کرنے کے لیے زمینی اور فضائی کارروائیوں کا آغاز کیا تھا۔

ستمبر میں شروع ہونے والے اس آپریشن کے دوران پاکستانی فورسز نے مختلف علاقوں سے درجنوں افراد کو گرفتار کرلیا ہے، جبکہ علاقے میں کرفیو نافذ ہے۔

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے بلوچستان کے ضلع خضدار کی تحصیل زہری و ملحقہ علاقوں میں فوجی کارروائیوں کے دوران بے گناہ شہریوں پر تشدد اور ہلاکتوں پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔

ایچ آر سی پی کے جاری کردہ بیان کے مطابق فوجی آپریشن کے دوران خضدار کے علاقے مولہ میں ایک شادی کی تقریب پر حملے میں کئی عام شہری، جن میں کم عمر بچے بھی شامل تھے جانبحق ہوئے۔

کمیشن کے مطابق مقامی ذرائع انھیں بتایا ہے کہ علاقے میں لوگوں کی نقل و حرکت پر سخت پابندیاں عائد کردی گئی ہیں اور متعدد قصبوں کو عملاً نوگو ایریا قرار دیا گیا ہے، ادارے نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے مطالبہ کیا ہے کہ ان واقعات کی فوری، شفاف اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کرائی جائیں۔

ایچ آر سی پی نے ریاستی حکام سے صحافیوں اور غیر جانب دار مبصرین کو متاثرہ علاقوں کا دورہ کرنے اور زمینی حقائق کی تصدیق کی اجازت دینے کا مطالبہ کیا ہے۔

واضح رہے کہ 5 اکتوبر کو خضدار کے علاقے مولہ پس بیل چھاڑی میں ڈرون اور ہیلی کاپٹروں سے کی گئی شیلنگ اور بمباری کے دوران چار بچوں سمیت چھ افراد جانبحق ہوگئے تھے۔

جانبحق ہونے والوں میں منظور احمد ولد عبدالحکیم، اس کے دو بچے اور ایک بھتیجا، جبکہ بی بی رحیمہ اور اس کا ایک بچہ شامل ہیں، زخمیوں میں بی بی رحیمہ کی ایک بیٹی اور ایک بیٹا بھی شامل ہیں۔

ایک ماہ سے زائد عرصے سے جاری فوجی آپریشن میں ابتک چار سے زائد فضائی بمباری اور ڈرون حملوں کے واقعات میں درجنوں افراد جانبحق ہوچکے ہیں، جبکہ متعدد افراد کو گرفتار کرنے کے بعد نامعلوم مقامات پر منتقل کیے جانے کی اطلاعات ہیں۔

اس سے قبل 15 ستمبر کو پاکستانی فورسز نے ایک فضائی حملے میں ایک گھر کو نشانہ بنایا تھا، جس میں پندرانی قبیلے کے تین افراد جانبحق ہوئے، دو روز بعد 17 ستمبر کو ایک ڈرون حملے میں دو خواتین سمیت چار افراد جانبحق اور ایک بچہ سمیت پانچ افراد زخمی ہوئے تھے۔

تراسانی کے قریب ڈرون حملے میں جانبحق ہونے والوں میں 40 سالہ بی بی آمنہ زوجہ ثناء اللہ، 41 سالہ لال بی بی زوجہ علی اکبر، اور 30 سالہ محمد حسن ولد محمد شامل تھے۔

اس ڈرون حملے کے زخمیوں میں 45 سالہ ثناء اللہ ولد غلام رسول، علی اکبر ولد عبدالحکیم، 38 سالہ عبدالنبی ولد محمد یعقوب، 4 سالہ عمیر احمد ولد غلام رسول اور 65 سالہ مولا بخش ولد منڈاؤ شامل ہیں۔

پاکستانی فورسز نے ڈرون حملے میں زخمی ہونے والے ثناء اللہ کو بعد ازاں حراست میں لے کر خضدار کینٹ منتقل کردیا تھا۔

مزید برآں زہری میں کرفیو کے باعث مقامی بازار گزشتہ کئی روز سے بند ہیں علاقے میں پاکستانی فورسز فوجی ٹینکوں کے ہمراہ موجود ہیں، جبکہ زہری کا واحد اسپتال بھی فورسز کے قبضے میں ہے طبی سہولیات کی عدم دستیابی کے باعث ایک حاملہ خاتون بروقت علاج نہ ملنے پر جانبحق ہوگئی۔